AHMAD JAVAID SAHIB


A blog about the Ahmad Javaid Sahib's Work | International Iqbal Forum.

عاقل اور عاشق



رومی : مرشد اقبال

احمد جاوید
٭جامعہ پنجاب کے زیر اہتمام ہونے والی بین الاقوامی اقبال کانگرس (نومبر ۱۹۹۸ئ) میں پڑھا گیا

معرفت ، عشق اور اخلاق ہماری متصوفانہ روایت کے عناصر ثلاثہ ہیں - اس روایت نے جو شعری دنیا تخلیق کی ہے ، مثنوی معنوی اور دیوان شمس تبریز اس کے قطبین ہیں - اس دنیا میں جو کچھ ہے ، انہی دو منتہائوں کے درمیان ہے - مثنوی عارفانہ اور اخلاقی شاعری کا منتہا ہے اور دیوان شمس تبریز عاشقانہ شاعری کا - ان تینوں جہتوں میں ہونے والا سارا سفر ، خواہ پہلے ہوا ہو یا بعدمیں ، رومی ہی پر تمام ہوتا ہے - وہ اس پہاڑ کی طرح ہیں جس کی ایک چڑھائی ماضی کی طرف ہے اور دوسری مستقبل کے رخ پر - اسے دونوں طرف سے سر کرنے کی کوششیں کی گئیں اور جب تک ہماری روایت میں زندگی کے آثار باقی تھے، یہ مہم جاری رہی - اب صورت حال یہ ہے کہ لفظ بڑے اور معنی چھوٹے ہو گئے ہیں - زندگی ظواہر تک اور شعور مظاہر تک محدود ہو کر رہ گیا ہے - ایسے میں رومی ایسی شخصیت پر گفتگو کرنا آسان نہیں ، کیونکہ وہ فضا جس کی تشکیل حقیقت اور ظہور حقیقت کےParadox پر ہوئی ہو ، ہمارے لیے سخت نامانوس اور اجنبی ہو چکی ہے - علم کو تجربی توثیق سے مشروط کر کے اور تجربی توثیق میں بھی انفرادی امتیازات کا انکار کر کے ، اسے جس طرح ایک مطلق نوعی عموم میں تبدیل کیا جا چکا ہے ، اس کا نتیجہ صرف یہی نہیں نکلا کہ مابعدالطبیعیات ، علم کے دائرے سے خارج ہو گئی ، بلکہ رفتہ رفتہ اس اخلاقی تحکم سے بھی محروم ہو چکی ہے جس نے کم از کم وہ ذہنی اور ذوقی پس منظر کسی حد تک محفوظ کر رکھا تھا جہاں چیزیں انسانی مطالبات اور تناظرات کی ان سطحوں سے بھی ہم آہنگ تھیں جو عقل و حواس کے میکانکی اور حیاتیاتی تلازم کی گرفت کو اگر بالکل ختم نہ کر سکیں ، تو بھی اسے اتنا ڈھیلا ضرور کر دیتی ہیں کہ آدمی کا دم نہ گھٹنے پائے - شے فی نفسہ کے ورائے ادراک ہونے کا دعوا بلاشبہ عملی طور پر بھی صحیح ہے اور منطقی طور پر بھی ، لیکن اس کا دائرہ اطلاق مدرکات کی اس قبیل تک محدود ہے جو کائناتی نہیں بلکہ صرف ارضی مفہوم میں زمانی - مکانی ہیں - اس کا تعلق محض انسان کی استعداد ادراک سے ہے نہ کہ نفس علم یا ماہیت علم سے - اس قضیے سے شے کی معلومیت کے حدود نہیں بلکہ شرائط کا تعین ہوتا ہے ، ورنہ وجود کی غیر محدودیت جو خود اس دعوے کی رو سے حقیقی اور واجب الاثبات ہے ، باطل ہو جائے گی - اسی لیے یہ کہنا درست ہو گا کہ تحقق شے ، شعور کا فطری داعیہ ہے جس کی تکمیل کے لیے عقل کو اپنے عام اسلوب ادراک سے بلند ہو کر سلب و ایجاب اور تصور و تصدیق کے اس نظام کو قبول کرنا پڑتا ہے جس کے تحت عقل کی انتہائی غایت یعنی تیقن کی کیفیت تو وہی رہتی ہے جو حواس کی فراہم کردہ ہے ، البتہ علم ، عالم اور معلوم کی مثلث میں ، معلوم کے غالب آنے کی وجہ سے اس تیقن کا حکم بھی بدل جاتا ہے اور موضوع بھی- اب صورت اعتباری ہے اور معنی حقیقی - شعور کی یہی وہ سطح ہے جس تک رسائی حاصل کیے بغیر رومی کو سمجھنے کی ابتدائی کوشش بھی نہیں کی جا سکتی ؎
علاج آتش رومی کے سوز میں ہے ترا
تری خرد پہ ہے غالب فرنگیوں کا فسوں (۱)
٭٭٭
گرہ از کار این ناکارہ وا کرد
غبار رہ گذر را کیمیا کرد
نیء آں نے نوازے پاکبازے
مرا با عشق و مستی آشنا کرد (۲)
یہ کہنا شاید غلط نہ ہو کہ اقبال کی تقریباً ساری نشو و نما رومی کے سائے میں ہوئی ہے - ان کے منارئہ عظمت کی اکثر بنیادیں رومی ہی کی ڈالی ہوئی ہیں - ایک عرصے تک میں اس خیال میں مبتلا رہا کہ اقبال کا خود کو مرید رومی کہنا محض از راہ انکسار ہے ، ان کے اس قول کو سنجیدگی سے نہیں لینا چاہیے - لیکن اب اس خام خیالی پر شرمندگی محسوس ہوتی ہے- وہ ٹھیٹھ خانقاہی مفہوم میں مرید رومی ہیں - مرشد کے وفادار اور شکر گزار -
اقبال کے بیشتر بنیادی تصورات ، رومی ہی کے سمندر کی لہریں ہیں - ان دونوں میں جزو و کل کی نسبت ہے - اگر علامہ کہیں کہیں ان سے مختلف نظر آتے ہیں تو یہ فرق و اختلاف بھی وہی ہے جو جزو و کل میں ہوتا ہے - میں اس گفتگو میں ایسا ہی ایک مسئلہ اٹھائوں گا جس پر رومی نے بھی کلام کیا ہے اور اقبال نے بھی - اس کی حیثیت رومی کے ہاں ضمنی اور ثانوی ہے ، جبکہ اقبال کے ہاں مرکزی اور بنیادی - وہ مسئلہ ہے مسئلہ ’’خودی‘‘- اس مبحث میں اقبال بظاہر رومی سے الگ کھڑے نظر آتے ہیں - رومی خودی کو قابل نفی بتاتے ہیں اور اقبال لائق اثبات - یہ بڑا اختلاف ہے ، بشرطیکہ علامہ بھی خودی کی وہی تعریف کرتے ہوں جو رومی کے ہاں پائی جاتی ہے- یعنی ایک جس خودی کو رد کر رہا ہے ، دوسرا اسی کو قبول کر رہا ہو تو یہ ایسا اختلاف ہو گا جس میں تطبیق کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی - دیکھنا یہ ہے کہ اس مسئلے پر ان دونوں حضرات کا موقف کیا ہے اور آیا ان کا اختلاف حقیقی ہے یا اسلوب اظہار اور جہت تفکر کے فرق کی وجہ سے پیدا ہوا ہے -
ہماری فلسفیانہ اور عرفانی روایت میں انسانی خودی کا اثبات اور اس کی ماہیت کی تحقیق کبھی مابعدالطبیعی امور کے ذیل میں نہیں کی گئی ، بلکہ اس سارے عمل کو ہمیشہ طبیعیات کے دائرے میں رکھا گیا - خودی کی طبیعی اور نفسیاتی صداقت اور اس سطح پر رہتے ہوئے ، اس کے وجودی استناد کو کم از کم علمی و عقلی بنیاد پر کبھی مشکوک نہیں گردانا گیا - اگر کہیں اس کی تردید یا نفی کی گئی ہے تو اس کے پیچھے کچھ روحانی و اخلاقی تقاضے اور مابعدالطبیعی مطالبے کار فرما ہیں جن کا ہدف نفس خودی نہیں بلکہ اس کے بعض خلقی اور اکتسابی رجحانات ہیں جو اسے اپنے حقیقی حدود سے تجاوز کر کے مرکز ہستی بننے پر اکساتے ہیں ، اور اس انفعال پر ضرب لگاتے ہیں جو حقیقی انیت کا مظہر بننے کی واحد شرط ہے - اقبال کے تصور خودی کی تمام تفصیلات سے گزرنے کے بعد جو نتیجہ ہاتھ آتا ہے ، وہ خودی کی روایتی تعریف سے کوئی اصولی تصادم نہیں رکھتا - شاعرانہ مبالغے کو ، خواہ نثر میں ہو یا شعر میں ، نظر انداز کر دیا جائے تو خودی کے حقیقی ہونے پر اقبال کا استدلال روایتی نقطۂ نظر کو مسترد نہیں کرتا - تاہم مشکل یہ ہے کہ روایتی نقطۂ نظر وہ نہیں ہے جو اقبال بیان کرتے ہیں - انہوں نے جن خیالات کو بجاطور پر رد کیا ہے ، وہ مستند روایتی حتیٰ کہ وحدت الوجودی نقطۂ نظر کی بھی ترجمانی نہیں کرتے - مثلاً انسانی انا بلکہ وجود ہی کو اعتباری کہنے کا صرف یہ مطلب ہے کہ مقید کو مطلق اور متناہی کو لا متناہی سے ممتاز رکھا جائے - اور اقبال کا منشا بھی یہی ہے - اعتبار ، حقیقت کی ضد نہیں ہے بلکہ اس کا مفہوم ہے جو ادراک کے زمانی مکانی سانچے میں ڈھلے ہوئے ہونے کی وجہ سے حقیقت کا عین نہیں بن سکتا ، اور چونکہ حقیقت نہ تغیر کو قبول کرتی ہے نہ تحدید اور تعدّد کو ، لہٰذا اس سے یقینی نسبت رکھنے کے باوجود وہ شے جو مقید ، متغیر اور متعدد ہے ، ازروے اصطلاح حقیقی نہیں کہلائے گی ، بلکہ اعتباری اور مجازی- یہ امتیاز اگر ملحوظ نہ رہے تو کئی لا ینحل دشواریاں سر اٹھا سکتی ہیں جن کے نتیجے میں خود حقیقت ایک ایسا تصور بن کر رہ جائے گی جس کی تصدیق محال ہو ، یا پھر وہ وحدت جو اس کا وصف ذاتی ہے ، ناقابل اثبات ہو کر ایک مستقل متوازیت میں تبدیل ہو جائے گی اور حقیقت مطلق اور مقید ، قدیم اور حادث ، لا محدود اور محدود وغیرہ کے اٹل متقابلات میںیکساں معنویت ،کیفیت اور شدت کے ساتھ تقسیم ہو جائے گی - اسی مہمل اور لایعنی صورت حال سے بچنے کے لیے وہ اصول امتیاز دریافت کیا گیا جس کی دونوں اطراف Valid اور واجب الاثبات ہیں - ایک طرف حقیقت ہے اور دوسری طرف اعتبار ، حقیقت کی جہت سے یہ امتیاز وجہ عینیت ہے اور اعتبار کی جہت سے بنائے غیریت - اس طرح وحدت بھی محفوظ رہی اور کثرت بھی - اور پھر سامنے کی بات ہے کہ انائے مطلق یا ذات حق اگر واحد اور لا محدود ہے تو اس کا غیر ، کسی بھی دلیل سے حقیقی نہیں ہو سکتا - اقبال کا یہ خیال کہ انا سے انا ہی کا صدور ہوتا ہے(۳) ،اس لیے سمجھ میں نہیں آتا کہ اس کا بد یہی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ حق و خلق بالذات ایک ہیں اور تخلیق اللہ کا ارادی فعل نہیں ہے بلکہ میکانکی عمل تحول ہے جس میں اس کی حیثیت معمول کی سی ہے - یقینا یہ نتیجہ اقبال کی کائنات فکر کے ایک ذرے سے بھی مناسبت نہیں رکھتا ، لیکن اس کاکیا کیا جائے کہ وحدت کی وجودی تعبیر کو رد کرنے کے لیے مفکر اقبال کو وجود کا کوئی ایسا متبادل درکار تھا جو حادث اور قدیم ، دونوں کا احاطہ کرنے والی وسعت رکھتا ہوتا کہ غیریت حقیقی اور عینیت باطل ہو جائے - یہ ضرورت شاعر اقبال کے ہاتھوں پوری ہوئی- تاہم عین ممکن ہے کہ یہ تجزیہ کوتاہی فہم کی پیداوار ہو اور خودی سے خودی کا صدور کوئی شاعرانہ تخیل نہ ہو بلکہ ربط الحادث بالقدیم کی حقیقی نوعیت کا ایک ورائے استدلال وجدانی ادراک ہو جس کی تصدیق کے لیے جن ذرائع کی ضرورت ہے ، وہ سر دست ہمیں میسر نہ ہوں - بہرحال ، اس نظریے پر وارد ہونے والا اشکال اس وقت تک ایک وزن رکھتا ہے جب تک اسے حل نہیں کیا جاتا -
اقبال کے تصور خودی میں صرف دو مقامات پر روایتی تصور سے ٹکرائو نظر آتا ہے - ایک کا ذکر اوپر آ چکا ہے، دوسرا مقام وہ ہے جہاں وہ بقائے خودی کا دعویٰ کرتے ہیں(۴)-اس دعوے کی تفہیم میں بھی کئی دشواریاں ہیں - مثلاً : انسانی خودی کی بقا کے کیا وہی معنی ہیں جو ربانی خودی کی بقا کے ہیں ؟ خودی کا وجود اگر زمانی ہے تو کیا زمانیات کی ماہیت منقلب ہو سکتی ہے ؟ اور اگر ہو سکتی ہے تو اس صورت میں ان کا وقت اساس تشخص کس طرح برقرار رہے گا ؟ اور کیا انسانی خودی کی بقاے دوام سے ذات الہٰیہ کی ہمیشگی محض ایک تصور بن کر نہیں رہ جائے گی ؟
اصل میں قصہ یہ ہے کہ اقبال کے مقاصد عقلی اور علمی نہیں ہیں بلکہ عملی ، اخلاقی اور روحانی ہیں جن کے حصول کی لگن اتنی سچی اور طاقت ور ہے کہ بعض اوقات فکر و نظر کی تمام تحدیدات کو توڑ کر تمنا کو حقیقت بنا دیتی ہے - اور یہ کوئی نقص نہیں ہے ، کیونکہ عرفانی مباحث میں عقل و استدلال کا عمل دخل ایک خاص سطح تک ہی رہتا ہے ، آگے تمناہی رہنمائی کرتی ہے- البتہ عرفانی روایت چونکہ اپنی نظری بنیادیں اچھی طرح استوار کر چکی ہے ، اس لیے ابن عربی وغیرہ کے بیانات سے کوئی عقلی الجھن نہیںپیدا ہوتی- ان کی داخلی منطق کی ساری چولیں مضبوطی سے بٹھائی گئی ہیں اور کوئی جھول نہیں رہنے دیا گیا - ان کی تائید بھی آسان ہے اور تردید بھی - جبکہ علامہ کا معاملہ یہ ہے کہ ہر ذہین اور Commited مفکر کی طرح وہ بھی چند مسائل میں منفرد ہیں جن کا منطقی ڈھانچہ آ گے چل کر بننا ہے - اس وقت تک ان کی معنویت شدت اظہار اور زور تیقن پر قائم ہے - تاہم اس طرح کے مسائل کو ہمیں ان کی فکر کے مرکزی دھارے میں شامل کر کے نہیں دیکھنا چاہیے تاکہ اس منطقی دروبست تک پہنچنا آسان ہو جائے جس کی بنیاد پر وہ نتائج قائم کرتے ہیں - عرفانی اور کلامی مباحث میں اصل اہمیت صحت انتاج کی ہوتی ہے جو فکر اقبال کا امتیازی وصف ہے - استدلالی تفصیل بھی اپنی جگہ اہم ہے مگر اس کا کردار حتمی نہیں ہوتا-
مختصر یہ کہ اقبال کا تصور خودی اپنی نتائجی جہت سے ایک تجربی صداقت اور نفسیاتی سچائی رکھتا ہے ، لیکن اس کے Metaphysical Contents ایک بڑے شاعر کے تخیل کی تخلیق ہیں -
دوسری طرف رومی کا بھی مرکزی موضوع انسان ہے ، افلاطون ، پلاٹی نس اور شنکر اچاریہ کا انسان نہیں ، بلکہ قرآن کا انسان جس کی صورت حقیقی ہے اور حقیقت بدیہی - رومی کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے انسان کی روحانی و اخلاقی حدود کو اتنا وسیع اور محکم کر دیا ہے کہ مابعد الطبیعی انداز نگاہ بھی اس کے احاطے سے قاصر اور اثبات پر مجبور ہے- یہ وصف اقبال کو بھی منتقل ہوا ہے ، مگر اس فرق کے ساتھ کہ بنیادی امور مثلاً خودی اور اس کی سب سے بڑی قوت یعنی عشق ، رومی کا تجربہ ہے اور اقبال کا نظریہ - رومی کے لیے معنی کوئی علامتی اور ذہنی چیز نہیں بلکہ تکمیل حال کا نام ہے کیونکہ حقیقت ،کسی عقلی اثبات کی نہیں بلکہ وجودی وابستگی کی متقاضی ہے ، اس لیے وہ فہم اور شرائط فہم کو شعور حقیقت کی ماہیت سے متصادم قرار دے کر حقارت سے رد کر دیتے ہیں- ان کا یہ رویہ اپنے اندر جیسا عارفانہ تحکم رکھتا ہے ، عقل اس کی منکر نہیں متمنی ہے - بلاشبہ غیر پیغمبرانہ لٹریچر کی پوری تاریخ میں رومی واحد شخصیت ہیں جس نے حقائق کو فلسفہ مابعد الطبیعیات ، عقل پرستی اور تجربیت کی گرفت سے نکال کر ان تک رسائی کے نئے راستے نکالے ہیں ، اور شعور کی نئی اساس دریافت کی ہے - اقبال انہی راستوں پر چلنے اور اسی اساس پر قائم رہنے کی کوشش کرتے ہیں - اس کوشش میں وہ اگر کہیں گرے بھی ہیں تو بھی ان کا رخ اپنے مرشد ہی کی طرف رہا ہے - مثلاً خودی کی بقاے دوام اور خودی سے خودی کا صدور ، علامہ سے نہیں نبھ سکا ، اب رومی کو دیکھیے کہ کس سہولت سے یہ معماحل کر دیتے ہیں :
 چہ حدیث است کجا مرگ بود عاشق را
این محال است کہ در چشمۂ حیوان میرم(۵)
٭٭٭
تو مردی و نظرت در جہان جاں نگریست
چو باز زندہ شدی زین سپس بدانی زیست(۶)
٭٭٭
چہ باشد آں مس مسکین چو کیمیا آید
کہ او فنا نشود از مسی بوصف زری
کیست دانۂ مسکین چو نو بہار آید
کہ دانگیش نگردد فنا پیء شجری(۷)
٭٭٭
اور یہ شعر تو ربانی خودی اور انسانی خودی کے تعلق کی ماہیت پر گویا حرف آخر ہے :
اے نظرت معدن ہر کیمیا
اے خود تو مشعلۂ ہر خودی(۸)
یہ ’’ خود ‘‘ کیا ہے ؟ ’’ خودی ‘‘ کا مصدر ہی تو ہے ! تاہم اس بیان میں کمال یہ ہے کہ انائے مطلق کی ورائیت (Transcendence)کو ذرا بھی مجروح کیے بغیر اسے انائے مقید کے تحقق (Realization) کی اصل بتایا گیا ہے اور ایک عارفانہ قدرت اظہار اور حسن کلام کے ساتھ ’’ خود‘‘ (Self) کو ’’ تو ‘‘ (Thou) پر زائد دکھایا گیا ہے تاکہ عینیت کا وحدت الوجودی تصور، اعتبار کی سطح پر بھی نہ پیدا ہو سکے - یہی وہ حقیقی تشبیہ و تنزیہ ہے جسے بعض وحدت الوجودیوں نے نظریۂ ٔتنزلات و تعینات میں صرف کر کے مسخ کر دیا -
رومی کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ بات کسی بھی مرحلے پر نظر انداز نہیں کرنی چاہیے کہ وہ وحدت الوجودی نہیں تھے - بلکہ اگر یہ کہا جائے تو شاید غلط نہ ہو کہ وحدت الوجود کی چٹان جس ہتھوڑے سے ٹوٹ سکتی ہے ، وہ یا تو رومی کے پاس ہے یا مجدد الف ثانی ؒکے پاس -یہ دونوں حضرات ہماری وہ تمام عرفانی ضروریات زیادہ محفوظ طریقے سے پوری کرتے ہیں جنہیں وحدت الوجود ابھار تو دیتا ہے مگر ان کی تکمیل کی وہ ضمانت نہیں دیتا جو دینی اور ایمانی شعور کے لیے بھی قابل تسلیم ہو - مثال کے طور پر انسانی خودی ، ابن عربی وغیرہ کے موقف کی روشنی میں ، دو حوالے رکھتی ہے : ثبوت اور عین - ثبوت کو حوالہ بنائیں تو یہ قابل اثبات تو ہے مگر موجود نہیں ہے ، اور عین کے حوالے سے یہ ثابت ہے نہ موجود- جن لوگوں نے دبستان ابن عربی کے فرفریوس(Porphyre) ، دائود قیصری کا ’’ مقدمۂ فصوص ‘‘ جو دراصل ایسا غوجی (Isagoge) ہی کا دوسرا روپ ہے ، پڑھ رکھا ہے ، وہ ثبوت اور عین کا مطلب یقینا سمجھتے ہوں گے ، لیکن جنہیں یہ موقع نہیں ملا ، ان کے لیے عرض ہے کہ مخلوقات کا وجود علم الٰہی میں ثبوت کہلاتا ہے اور عالم خارجی میں عین - خودی ، مرتبہ ثبوت میں حقیقی ہے لیکن انسانی نہیں اور مرتبہ عین میں انسانی تو ہے ، حقیقی نہیں ہے - یہ ہے وحدت الوجودیوں کا پورا موقف - رومی ، سلب ایجاب کی اس منطقی بازی گری کی طرف التفات نہیں کرتے - ان کے ہاں خودی کی دو جہتیں ہیں : ذاتی اور وصفی- ذاتی کا اثبات ضروری ہے اور وصفی کی نفی - بلکہ یوں کہنا بہتر ہو گا کہ خودی کی ذاتی جہت کے اثبات کے لیے اس کی وصفی جہت کی نفی لازمی ہے - اس اصول کی تفصیل میں جانا تو موجب طوالت ہوگا ، سردست ایک اجمالی توضیح پر اکتفا کرتے ہیں - خودی کی اولین Manifestation ’’انا الموجود ‘‘ ہے - یہ ایسا دعویٰ ہے جس کی دلیل اسی میں گندھی ہوئی ہے - یہ وہ حقیقت ہے جس کے اثبات میں کیا جانے والا ہر استدلال اسے اجاگر کرنے کی بجائے اس پر پردہ ڈال دے گا- تاہم اتنی عظیم الشان بداہت کے باوجود ،خودی کا یہ ظہور اول اندر سے دولخت ہے- اس میں ’’انا‘‘ خودی کا ذاتی تعین ہے اور ’’ موجود ‘‘ وصفی - دائرئہ ظہور میں خودی کا کوئی درجہ اور وجود کا کوئی مرتبہ ایسا نہیں جو اس دولختی سے خالی ہو ، کیونکہ اس کے بغیر خود ظہور ہی محال ہے - حقیقت پر جب تک کوئی چیز زائد نہ ہو ، اس کا اظہار نا ممکن ہے ، بقول نظیری      ؎
مشاطہ را بگو کہ بر اسباب حسن یار
چیزے فزوں کند کہ تماشا بما رسد
حقیقت یا ذات یا خودی پر ہونے والا یہ اضافہ ، ظاہر ہے کہ خود حقیقی نہیں ہے ، لیکن خودی کا ہر انکشاف ،خواہ ذہنی ہو یا خارجی ، ربانی ہو یا انسانی ، اسی پر مدار رکھتا ہے - انسانی صورت حال میں بھی خودی ’’ میں ہوں ‘‘  کا جو ذہنی اور تجربی پیکر تشکیل دیتی ہے ، اس کی زیادہ سے زیادہ حیثیت دلالت التزامی کی ہے جو اپنے مدلول کے ساتھ کامل پیوستگی رکھنے کے باوجود اس کا احاطہ کرنے کے قابل نہیں ہے - ’’ہونا‘‘ میری انا کے بے شمار احوال میں سے ایک حال ہے جو زمان و مکاں کی موجودہ بناوٹ سے ہم آہنگ رہنے کے لیے ہستی کے ایک عمومی اسلوب کے طور پر ظاہر ہوا ہے - انسانی خودی کی Actual Realization کے لیے یہ اسلوب نا کافی ہی نہیں بلکہ رکاوٹ بھی ہے ، جس کا ازالہ کیے بغیر خودی کی ماہیت کا صحیح تصور قائم نہیں کیا جا سکتا - خودی ، وجود کی رسی پر پڑنے والی گرہ یا اس کے دریا کی سطح پر بننے والا کوئی بلبلا نہیں ہے کہ اس کی حیثیت ہستی کے بہائو میں ایک عارضی توقف اور مستقل عموم میں ایک اضافی تشخص کی سی ہو- وجود کو مادہ اور خودی کو صورت مان کر انسان کی حیاتیاتی تعبیر تو کی جا سکتی ہے لیکن اس کا فصل حقیقی یعنی ذاتی امتیاز ثابت نہیں کیا جا سکتا - اگر ہم یہاں سے چلیں کہ امتیاز ، ذاتی امر ہے اور اشتراک،وصفی --- تو ہمیں پہلے ہی قدم پر خودی اور وجود کی اس تقابلی نسبت کا سامنا کرنا پڑے گا جس کا کائناتی مظہر انسان ہے - اسے گرفت میں لائے بغیر انسان کی حقیقت تک نہیں پہنچا جا سکتا - جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ تقابلی نسبت وہ اصول ہے جو دو امور کو ایک دوسرے سے منقطع ہونے دیتا ہے نہ ایک دوسرے میں مدغم - انسانی دائرے میں بھی خودی اور وجود میں معنی وصورت ، جو ہر و عرض اور ماہیت و وصف کی نسبت کار فرما ہے - یہ اصالت و اضافت کے مظاہر ہیں - اضافت کا سلب ہو یا ایجاب ، اصالت اپنی جگہ رہتی ہے - ’’میں ہوں کیونکہ میں نہیں ہوں‘‘ اور ’’میں نہیں ہوں کیوں میںہوں‘‘ یہ ہے وہ Paradox Pattern جس کا ذکرتمہید میں آیا تھا - اسی میں انسانی خودی کی حقیقت کہیں پوشیدہ ہے   ؎
خویش را صافی کن از اوصاف خویش
تا ببینی ذات پاک صاف خویش(۹)
 خودی کو اس کے اوصاف سے پاک کرنے کا یہ مطالبہ عاشقانہ بھی ہے اور عارفانہ بھی- اس مطالبے کی تکمیل کا ذریعہ بھی دونوں میں مشترک ہے : خودی کے غیر زمانی عنصر کو اس کے زمانی عناصر پر کلیتہً غالب کر دینا یا بالفاظ دیگر اس کی اصالت یعنی ذاتیت کو اضافت یعنی وجودیت سے ممتاز کر دینا  - اقبال نے وجود کو ’ جوہر خودی کی نمود ‘(۱۰) کہا ہے ، جس کے تجربے کا آخری مرحلہ جوہر اور اس کی نمود کے اتحاد نہیں ، امتیاز پر تمام ہو گا- لیکن یہ امتیاز حقیقت خودی کی طرف اشارہ تو کرتا ہے ، اس کا احاطہ نہیں کرتا - اقبال چونکہ خودی کے تاریخی اور اخلاقی امکانات کو ایک تقدیر ی آہنگ اور تسخیری قوت میں ڈھال کر بروئے کار لانا چاہتے ہیں، لہٰذا انہیں مابعدالطبیعی اور Ontological رنگ اور لہجہ اختیار کرنا پڑا تاکہ زندگی کے تاریخی حدود اور نفس کی اخلاقی استعداد کی کم بضاعتی کا سوال اٹھنے ہی نہ دیا جائے - رومی ، خودی کے تاریخی کردار سے دلچسپی نہیں رکھتے البتہ اس کے اخلاقی امکانات کی تکمیل ان کا بڑا مسئلہ ہے - اس لیے وہ جس چیز کی نفی پر زور دیتے ہیں ، وہ خودی کا وصفی تعین ہے جو اس کی ذاتی وسعت کو بالکل سکیڑ دیتا ہے اور اس نسبت کو بھی اوجھل کر دیتا ہے جو اسے مطلق خودی کے ساتھ ہے - خودی کے تمام تر اخلاقی امکانات اور ان کی تکمیل کے جملہ وسائل ، اسی نسبت پر منحصر ہیں - یہ نسبت نہ ہو تو اخلاق ایک بے معنی لفظ ہے - رومی اور اقبال ، دونوں کی نظر میں خودی کا اخلاقی کمال اس کے ذاتی انفعال کی Actualization یعنی عشق سے مشروط ہے - تاہم اقبال ، عشق کی بیشتر قوت عاشق کا قد بڑھانے میں صرف کر دیتے ہیں - ان کا عشق کہیں کہیں محبوب سے بھی بے نیاز ہو جاتا ہے ؛ جبکہ رومی کا عشق محبوب مرکز ہے ، مگر عاشق کو بھی ایک حسب مراتب توازن کے ساتھ ملحوظ رکھتا ہے - اقبال اور رومی کا یہ فرق مخالفانہ نہیں ہے بلکہ فطری ہے - یہ وہی فرق ہے جو نظریہ و حال ، علم و عین اور جزو و کل میں ہوتا ہے - رومی عشق کے داعیہ فنا اور اخلاق کے تقاضائے بقا کو نہ صرف یہ کہ باہم متصادم نہیں ہونے دیتے بلکہ دونوں کو ایک دوسرے کی تکمیل کا ذریعہ بنا دیتے ہیں - اور یہ ایک تقریباً نا ممکن کام تھا جسے انہوں نے اس خوبی سے سر انجام دیا کہ خودی کے تمام داخلی و خارجی مراتب میں وصل و فصل کا وہ مستقل ضابطہ قائم ہو گیا جس کے بغیر توحید یعنی وحدت حقیقی جو ہستی کا اصل الاصول ہے ، متحقق نہیں ہو سکتی - اس وحدت حقیقی کی اکثر تعبیرات میں انسانی خودی کے اس تعین کو جو زمانیت اور تغیر سے محفوظ ہے یا تو رد کر دیا گیا یا پھر ربانی خودی میں کھپا دیا گیا - توحید کا صوفیانہ ورژن زیادہ تر اسی رویے کا آئینہ دار ہے - اس روایت میں رومی غالباً پہلے آدمی ہیں جنہوں نے صوفیہ کی ایک بڑی جماعت کی طرف سے پھیلائی گئی اس غلطی کی تصحیح کی اور وحدت حقیقی کے اثبات کے لیے وہ راہیں کھولیں جن پر چل کر متصوفانہ استدلال بھی کمال کو پہنچ گیا اور احوال بھی - ’’ مثنوی ‘‘ کے دفتر پنجم میں ایک مقام پر مولانا فرماتے ہیں     ؎


گفت معشوقے بعاشق ز امتحاں
در صبوحی کاے فلاں ابن فلاں
مر مرا تو دوست تر داری عجب
یا کہ خود را راست گو یا ذا الکرب ؟
گفت من در توچناں فانی شدم
کہ پرم از تو ز ساراں تا قدم
ہمچو سنگے کو شود کل لعل ناب
پر شود او از صفات آفتاب
بعد ازاں گر دوست دارد خویش را
دوستی خور بود آں اے فتا
ور کہ خود را دوست دارد او بجاں
دوستی خویش باشد بے گماں
اندریں دو دوستی خود فرق نیست
ہر دو جانب جز ضیاے شرق نیست
تا نشد او لعل خود را دشمن است
زانکہ یک من نیست آنجا دو من است(۱۱)
یہ ہے وہ پورا منظر نامہ جہاں انسانی خودی ، مطلق خودی سے وہ نسبت پیدا کرتی ہے جو تحقق کی سطح پر ان کی دوئی کو محفوظ رکھتی ہے اور اثبات کی سطح پر انہیں ایک کر دیتی ہے - یہاں وجو د بھی کہیں پیچھے رہ گیا ہے اور وحدت الوجود بھی -
حواشی
۱ -    بال جبریل ، کلیات اقبال (اردو) اکادمی ایڈیشن ، اقبال اکادمی پاکستان ، لاہور ۱۹۹۰ء ص ۴۰؍۳۶۴-
۲ -    ارمغان حجاز ، کلیات اقبال (فارسی) ص ۶۶؍ ۸۱۸ -
    ترجمہ : ’’ رومی نے اس ناکارہ کا کام بنا دیا
        راستے کی مٹی کو کیمیا بنا دیا
        اس پاک باز نے نواز کی تان نے
        مجھے عشق و مستی سے آشنا کر دیا‘‘
۳ -     I "have Conceived the Ultimate Reality as an Ego: and I must add  now that from the Ultimate Ego only egos Proceed."
    "The Conception of God and the Meaning of Prayer (Lec III) ,The Reconstruction of Religious Thought in Islam, Iqbal, Edited and annotated by M.Saeed Sheikh. Iqbal Academy Pakistan/Institute of Islamic Culture , Lahore , 1989, P.57.
۴-    اس موضوع پر اقبال کے تفصیلی موقف کے لیے دیکھیے Reconstruction.... کا چوتھاخطبہ :  Freedom and Immortality"  The Human Ego His "
۵-    کلیات شمس یا دیوان کبیر ’’ رومی [ کوئی بھی نسخہ] شعر ۱۷۱۶۹ -
    ترجمہ : ’’ کیا خوب قول ہے کہ عاشق کو موت کہاں !
        یہ محال ہے کہ میں آب حیات کے چشمے میں ڈوب کر مر جائوں ‘‘
۶ -    کلیات شمس شعر ۵۲۳۵ -
    ترجمہ :  ’’ تو مر گیا اور تیری نگاہ نے روح کی دنیا کا مشاہدہ کیا
        جب تو دوبارہ زندہ ہوا تو پھر تو نے جانا کہ کیسے جیا جاتا ہے ‘‘
۷ -     کلیات شمس شعر ۲ - ۳۲۷۰۱ -
    ترجمہ : ’’  جب کیمیا آ جائے تو بچارے تانبے کی کیا حیثیت ہے
        کہ وہ تانبا پن چھوڑ کر سونا نہ بن جائے
        جب بہار سارے میں چھا جائے تو بچارے دانے کیا ہستی ہے
        کہ اس کا دانہ پن ، شجر بننے کے لییے فنا نہ ہو جائے ‘‘
۸ -    کلیات شمس شعر ۳۶۳۲۸ -
    ترجمہ:  ’’ اے کہ تیری نظر ہر کیمیا کی کان ہے
        اے کہ خود تو ہر خودی کی مشعل ہے ‘‘
۹ -    مثنوی معنوی رومی [ کوئی بھی نسخہ] دفتر اول شعر ۳۴۶۰ -
        ترجمہ ’’ خود کو اپنے اوصاف سے پاک کر لے تاکہ اپنی پاک اور اجلی ذات کا مشاہدہ میسر آ جائے
۱۰ -      کلیات اقبال ، ’’ ضرب کلیم ‘‘،’’ افرنگ زدہ ‘‘ ، ص ۴۶؍۵۴۶-
۱۱ -    مثنوی معنوی دفتر پنجم ، شعر ۲۲ - ۲۰۲۰، ۲۰۲۵، ۲۸-۲۰۲۷،۳۱ -۲۰۳۰ -
    ترجمہ ’’ ایک معشوق نے صبح ہوئی تو عاشق کو آزمانے کے لیے پوچھا : اے فلاں بن فلاں ! اے دکھ درد کے مارے ! سچ سچ بتا کہ تو مجھے زیادہ محبوب رکھتا ہے یا خود کو ؟ ‘‘ عاشق نے کہا : ’’ میں تجھ میں اس طرح فنا ہو چکا ہوں کہ سر سے پائوں تک تجھی سے بھرا ہوا ہوں جیسے پتھر جب کھرا یاقوت بن جاتا ہے تو سورج کی صفات سے معمور ہو جاتا ہے - اب اگر وہ خود کو دوست رکھتا ہے تو سورج ہی کو دوست رکھتا ہے ، اور اگر سورج کو دل و جان سے محبوب رکھتا ہے تو بلاشبہ اپنے آپ سے ہی محبت کا حق ادا کرتا ہے - ان دونوں دوستیوں میں کوئی فرق نہیں کیونکہ دونوں ایک ہی نور سے روشن ہیں- جب تک پتھر یا قوت نہیں بنتا ’ اپنا دشمن ہے ‘ کیونکہ اس میں ایک ’’ میں ‘‘ نہیں بلکہ دو ’ میں‘‘ہیں‘‘ -

تفہیمِ بالِ جبریل: ابتدائی تین غزلوں کی شرح کا ایک جائزہ


شرحِ کلام اقبال کی روایت اگرچہ ابھی پختگی سے دور ہے تاہم یوسف سلیم چشتی کا دم تاحال غنیمت ہے۔ وہ اس طرف متوجہ نہ ہوتے تو شاید اقبال کی شاعری فہم اور ذوق کی اعلیٰ سطحوں سے لاتعلق رہ جاتی اور ایک عام قاری ان کی شعری عظمت کے اسباب تک پہنچنے سے قاصر ہی رہتا۔ باقی شار حین نے ا لّاماشاء اﷲ کلامِ اقبال کو ایک عام فہم پیغام بنانے سے زیادہ کچھ نہیںکیا۔ ان کی شرحیں دیکھ کر کئی غیر ضروری معلومات تو حاصل ہو جاتی ہیں لیکن یہ پتا نہیں چلتا کہ اقبال ایک بڑے شاعر اور تاریخ ساز مفکر تھے۔
پروفیسر ڈاکٹر خواجہ محمد ذکریا کی تفہیمِ بالِ جبریل کا ماقبل اشاعت تذکرہ بہت سن رکھا تھا، جب چھپ کر سامنے آئی تو اس خیال سے دیکھنا شروع کیا کہ خواجہ صاحب نے شارحین اقبال کی کوتاہیوں کا کچھ نہ کچھ ازالہ ضرور کیا ہوگا۔ لیکن یہ کتاب بھی اسی روایت کا ایک تسلسل ہے۔ بالِ جبریل اقبال کی شاعری کا منتہا ہے، اس کی شرح کے مطلوبہ تقاضے اس کتاب کی اشاعت سے بھی پورے نہیں ہو سکے۔
تفہیمِ بالِ جبریلکو اگر دو حصوں میں منقسم تصور کر لیا جائے تو اس میں اغلاط اور نقائص دونوں نظر آتے ہیں اور بہت سے مشمولات مطلوبہ معیارِ شرح وتفسیر تک رسائی حاصل کرنے سے قاصر محسوس ہوتے ہیں۔ اغلاط ونقائص متعدد ہیں۔ اس لیے یہ تبصرہ زیرِ نظر کتاب کے ایک جز تک محدود رہے گا اور اُس کی صورت یہ ہوگی کہ بالِ جبریل کے پہلے حصے کی غزلیات کی تفہیم شعر بہ شعر اس طرح دیکھی جائے گی کہ پہلے خواجہ کی عبارت یا اس کا خلاصہ انھی کے لفظوں میں نقل کیا جائے گا پھر تجزیہ کی ذیلی سرخی لگا کراس کی بنیادی نارسائی اور اس کے اسباب کی فہرست دی جائے گی او رپھر اس کے بعد تبصرہ کے عنوان سے اس فہرست کے مشمولات کو کھولا جائے گا۔ اس کے بعد فرہنگ کا جائزہ لیا جائے گا۔ لیکن پیشتراس کے کہ اس عمل کاباقاعدہ آغاز کیاجائے، مناسب ہوگا کہ ایک آدھ بات شعر کی تشریح وتفہیم کے اصول وآداب کے حوالے سے عرض کر دی جائے۔
تفہیمِ شعر کا ایک بنیادی ضابطہ یہ ہے کہ شعر میں کارفرما معنوی اور فنی تشکیل کے عمل کو سامنے لایا جائے۔ اس میں موجود معنوی تنوع کا احاطہ کیا جائے اور معانی کی درجہ بندی کرکے ان میں ایک ترجیح قائم کی جائے جو مرادات کی کثرت کو انتشار میں نہ بدلنے دے۔ مختلف الدرجات معانی کا تعین اور ان کے درمیان ایک فنی اور تخلیقی ربط کی دریافت، شارح کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ پہلے لفظوں کی حیثیت، یعنی ان کا علامت وغیرہ ہونا طے کیا جائے تاکہ شعر کی معنویت کا جمالیاتی جوہر گرفت میں آجائے، جو یوں تو ہر طرح کے پڑھنے والے کودرکار ہے مگر شارح کے لیے تو لازمے کی حیثیت رکھتا ہے۔ اسی طرح وہ شرح بھی بے فائدہ اور بے جواز ہے جو شعر کے فنی دروبست کا تجزیہ نہیں کرتی۔ جمالیاتی مرتبہ متعین نہ ہو تو شعر کاایک سطحی سا مطلب جان لینا کوئی چیز نہیں ہے۔
تفہیمِ بالِ جبریل میں شرح وتعبیر کی یہ ذمہ داریاں بڑی حد تک نظر انداز ہوگئی ہیںاو رمعنوی تہ داری اور فنی محاسن کی طرف مطلوبہ اشارہ کرنے کی جانب توجہ نہیں کی گئی۔ حتیٰ کہ ان شعروں میں بھی جو معانی کے تنوع اور الفاظ کی مناسبتوں سے گویا چھلکے پڑ رہے ہیں۔

۱
اٹھ کہ خورشید کا سامانِ سفر تازہ کریں
نفسِ سوختۂ شام و سحر تازہ کریں
’’اس کامطلب یہ ہے کہ مسلمان قوم اس دور میں تھکی تھکی معلوم ہوتی ہے جیسے اس کی سانس پھولی ہوئی ہو۔ اب اسے تازہ دم ہو کر جدوجہد کے لیے نکلنا چاہیے۔ اقبال کہتے ہیں: اے ملتِ اسلامیہ کے فرزندو! اٹھو اور خورشید تک پہنچنے کی تیاری کرو۔ تمھاری منزل ستاروں سے بھی بلند ہے۔ دنیا ہی میں تھک ہار کر نہ بیٹھ جائو۔بلندیوں کے سفر کے لیے تیار ہوجائو۔‘‘ ص۔ ۱

تجزیہ:    اجنبی اسلوب، اکہری تفہیم، شعر فہمی کے اصول سے بے توجہی۔
تبصرہ:    اس شعر کا شمار اقبال کے بڑے شعروں میں ہوتا ہے ۔ بڑا شعر فن اور معنی دونوں اعتبار سے بڑا ہوتا ہے۔ شرح میں فن کا تذکرہ نہیں،معنی البتہ بتائے گئے ہیں۔ مگر ان کی سطح اتنی عام ہے کہ یہ شعر اقبال کے کمزور ترین اشعار کے برابر آگیا ہے۔ اور پھریہ ناقابلِ التفات مطلب جس طرح بیان ہوا ہے، رہی سہی کسر اس سے پوری ہوگئی ہے۔
اس شعر میں ’خورشید‘، ’خورشید کاسامان سفر‘، ’نفسِ سوختۂ شام وسحر‘کی معنوی حیثیت اور علامتی پیچیدگی کی طرف متوجہ ہوئے بغیر یہ شعر ادنیٰ درجے پربھی سمجھ میں نہیں آسکتا۔ صرف یہی نہیں، ’سامانِ سفر تازہ کرنا‘ اور ’نفسِ سوختہ تازہ کرنا‘ ابھی احساس، تخیل اور معنی کی کئی سطحوں کو محیط ہیں اور ایک بالکل نیا لسانیاتی اور جمالیاتی تناظر وضع کرتے ہیں۔ فعل کو علامت کے قریب قریب پہنچا دینا کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ اس سے آفاقیت اور شکوہ پیداہوتا ہے، جس کے زور سے بڑے معانی بھی احساس اور جذبے کی پکڑ سے باہرنہیں رہتے۔ اسی طرح ’اُٹھ‘ کا مخاطب غیر متعین ہونے کی وجہ سے ایک مرتکز پھیلائو پیدا ہوگیا ہے جواقبال کے تصورِانسان او رتصورِ مسلمان کوپوری طرح سموئے ہوئے ہے۔ پھیلائو، انسان کا احاطہ کرتا ہے اور ارتکاز، مسلمان کا۔ یعنی کہ مسلمانی جوہر ہے اور انسانیت اس کا عرض۔ اس ایک فنّی کمال نے دیکھیے فکرومعنی کی بلند تر سطح پربھی کیسا دقیق تصرف کر دکھایا۔ ہم آسانی سے سمجھ لیتے ہیں یاسمجھ سکتے ہیں کہ اس تقدیری آہنگ رکھنے والے امر کا سامع انسان ہے اور مخاطب،مسلمان۔
اِس طرح شعر ایک دوسرے مطلب کا بھی واضح امکان،احتمال اور گنجائش رکھتا ہے۔ ’خورشید کا سامانِ سفر‘ خورشید کا اپنا سامانِ سفر بھی ہو سکتاہے۔ دریں معنی کہ خورشید کو اس راستے پر اور اس سمت میں چلائیں جس پر چلنے کی فی الحال اس میں سکت نہیں ہے یا جس پر چلنا اسے یاد نہیں رہا یا اس کے پاس اس سفر کا سامان نہیں ہے۔ خورشید کاسامانِ سفر تازہ ہوگیا تو صبح وشام کی درماندگی،مردنی اور یکسانی کا خاتمہ خود بخود ہو جائے گا اور کائنات ہماری مراد کے تابع ہو کر خود اپنی غایتِ تخلیق کو پہنچ جائے گی۔
ڈاکٹر صاحب کا نکالا ہوا مطلب غلط نہیں ہے لیکن اِس مطلب تک پہنچنے کا وہ طریقہ اختیار نہیں کیا گیا جو قاری کو اتنے بلند پایہ شعر کی تحسین کے قابل بنا دیتا۔ تفہیم کا کام بس اتنا نہیں ہے کہ کسی شعر کو یک سطری بیان بنا کر پیش کردیا جائے یا اس کی نثر کرکے طالب علموں کو فراہم کر دی جائے۔ شارح کی ذمہ داری ہے کہ شعر میں کھلنے اور پھیلنے کی جتنی گنجائش پوشیدہ ہے اسے عمل میں لاکر دکھائے تاکہ پڑھنے والا شعری مفاہیم کی جمالیاتی بناوٹ سے واقف ہو جائے اور اس شعر کا تخلیقی مرتبہ بھی پہچان لے۔
خواجہ صاحب اگر ’اُٹھ‘ ہی کو کھول دیتے تو شعر کی بلندیوں کا کچھ نہیں تو ایک عکس ہی میسر آجاتا۔ مگر یہاں بھی وہ اثر لکھنوی کے ایک سطحی دعوے تک مار کرکے مطمئن ہوگئے۔ اقبال نے یہ عام سا کلمہ جس آہنگ کے ساتھ اور جس فضا میں کہا ہے، اس سے مخاطب کے باطن میں وہ قدیم گونج بیدار ہو جاتی ہے جو حرفِ کُن کی سماعت سے یا عیسیٰ علیہ السلام کی زبانِ مسیحائی سے ’قم‘ کا امر سن کر پیدا ہوئی ہوگی۔
کم سطحی کے اس نقص کے علاوہ اس شعر کی شرح میں ’نفسِ سوختۂ شام وسحر‘ کو مسلمانوں کی پھولی ہوئی سانس سمجھا گیاہے۔ ’’مسلمان قوم اس دور میں تھکی تھکی معلوم ہوتی ہے جیسے اس کی سانس پھولی ہوئی ہو۔‘‘ اسلوب کی سخت ناہمواری سے قطعِ نظر یہ پوری بات غلط ہے۔ شعر میں اس کاکوئی قرینہ نہیں پایا جاتا۔ ’نفسِ سوختۂ شام وسحر‘ سے ایک عمومی سطح پر یہ مراد ہے کہ وقت میں سے وہ جوہرِ حرکت سلب ہوچلاہے جسے انسان تخلیق کرتا ہے، یعنی تاریخ کی ارتقائی پیش قدمی کا فقدان۔ باقی اس شعر کی جمالیاتی معنویت اتنی کثیرالاطراف ہے کہ اس کا احاطہ تو بہرحال ناممکن ہے البتہ کچھ اشارات قائم کیے جا سکتے ہیں جن کی مدد سے یہ انتہائی پیچیدہ مگر معنی خیز شعر کسی حد تک گرفت میں آسکتاہے۔
۱۔ ’اُٹھ‘
۱:۱    تو لیٹا ہوا ہے، اٹھ جا!
۲ : ۱    تو پائوں توڑکربیٹھ رہاہے، کھڑاہو جا!
۳ : ۱    تو مایوس ہو چکا ہے، ہمت کر اور نئے سرے سے گرمِ عمل ہو جا!
۴ : ۱    تو سو گیاہے، جاگ جا!
۵ : ۱    تو اپنے آپ کوبھولا ہوا ہے، ہوش میں آ!
۶ : ۱    توزندگی کی پست سطحوں میں مبتلا ہے، ان گراوٹوں سے بلندہوجا!
۷ : ۱    تو بہت بلندی سے گرا ہے، ماتم میں وقت ضائع مت کر، اٹھ جا!
۸ : ۱    تو مر چکاہے، پھر سے جی اٹھ!
۹ : ۱    تو خلیفۃ اﷲ ہے/ مقصودِ کائنات ہے/ خلاصۂ ہستی ہے/ مظہرِ خداہے! یوں بے کار مت
    بیٹھ، جس کام کے لیے بھیجا گیا ہے اسے شروع کردے۔
۱۰ : ۱    کائنات اپنی تکمیل اور بقا کے لیے تیری منتظرہے۔اٹھ اور اسے مکمل اورزندہ کردے!
۱۱ : ۱    تیرے بیٹھے رہنے سے کارخانۂ ہستی ویران پڑاہے، اٹھ اور اس کی ویرانی کو ختم کر دے!
۲۔ ’خورشید‘
۱ : ۲    نظامِ کائنات کامرکز
۲ : ۲    وقت کی اصل اور مکان کا منتہا
۳ : ۲    لوحِ تقدیر
۴ : ۲    حقیقتِ حیات، سرچشمۂ زندگی
۵ : ۲    عروج کی آخری حد، رسائی کا انتہائی درجہ
۶ : ۲    ناممکن الحصول بلندی
۳۔ ’خورشید کا سامانِ سفر‘
۱ : ۳    وہ سامان جو انسان/ مسلمان کوخورشیدتک پہنچنے کے لیے درکار ہے۔
۲ : ۳    وہ سامان جو خورشید کو اپنی منزل تک پہنچنے کے لیے درکارہے۔
۴۔ ’سامان … تازہ کریں‘
۱ : ۴    سامان ہماری تحویل میں ہے، اسے ٹھیک سے یک جا کرکے کام میں لائیں۔
۲ : ۴    سامانِ سفر موجودہے۔ سفرکرناباقی ہے۔
۳ : ۴    پہلے اسی سفر کے لیے جو زادِ راہ تیارکیا تھا، وہی اس بار بھی فراہم کرلیں۔
۴ : ۴    اس سفر کی روایت کو دوبارہ زندہ کریں اور اس کے اصول وآداب کونئے سرے سے وضع کریں۔
۵۔ ’نَفَسِ سوختۂ شام وسحر‘
۱ : ۵    صبح وشام کی پژمردگی/ بے حرکتی/ تھکن
۲ : ۵    زندگی کی مُردنی / مایوسی /ناکامی
۳ : ۵    وقت کاٹھہر جانا
۴ : ۵    تاریخ کا نقطۂ زوال پر جامد ہو جانا
۵ : ۵    ایک لگے بندھے معمول پرچل چل کر کائنات کانڈھال ہو جانا
۶ : ۵    دنیا کا اپنے مقصود اور کمال تک پہنچنے سے قاصر اور مایوس ہو جانا
۷ : ۵    عالم گیر ناامیدی / تھکن / بے مقصدی / لایعنیت / جبر
۶۔’ نَفَس … تازہ کریں‘
۱ : ۶    احیائے ملت کریں۔
۲ : ۶    نظامِ ہستی کو اُس کی اصل پر استوار کرکے از سرِ نو چلائیں۔
۳ : ۶    کائنات کو تسخیر کرکے اسے اس کی مراد کو پہنچا دیں۔
۴ : ۶    کائنات میں انسان کی مرکزیت عملاً بحال کریں۔
۵ : ۶    وقت کواپنی مراد پر چلائیں۔
۶ : ۶    انسان اور کائنات کی مشترکہ افسردگی کاازالہ کریں۔
اس شعر کی تشریح وتفہیم اگر ان اشارات کو پوری طرح جامع نہیں ہے توناقص ہے۔

۲
پھول کی پتی سے کٹ سکتاہے ہیرے کا جگر
مردِ ناداں پر کلامِ نرم و نازک بے اثر
’’اقبال کے شعر کا مطلب یہ ہے کہ پھول کی پتی سے ہیرے کو اندر تک کاٹ ڈالنا اگرچہ ناممکن کام ہے، یہ ناممکن بھی ممکن ہو سکتاہے البتہ کسی بے وقوف شخص پر نرم و نازک یعنی لطیف بات کسی صورت اثر نہیں کرسکتی۔‘‘  ص۔ ۱، ۲

تجزیہ:    مطلب نامکمل، اسلوب ناتراشیدہ
تبصرہ :    دوسرے مصرعے میں مگر کو محذوف مان کریہ مطلب نکالنا غلط نہیں ہے لیکن بھرتری ہری کے متعلقہ اشلوک کی روشنی میں اس مطلب کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ شعر کی مراد کو پہنچنے کے لیے پہلے مصرعے میں ’پھول کی پتی سے‘ کے بعد ’کبھی‘ یا ’کہیں‘ کو محذوف قرار دینا پڑے گا۔ یعنی پھول کی پتی سے بھی کہیں ہیرے کا جگر کاٹا جاسکتاہے۔ اس شعر کی مفہومی ترتیب مصرعوں کی ترتیب کے برعکس ہے۔ مردِناداں پر نرم ونازک کلام بے اثر رہتاہے کیوں کہ پھول کی پتی سے ہیرے کا جگر نہیں کٹ سکتا۔
آگے چل کر اس شعر کا خلاصہ کیا گیاہے: ’’مفہوم یہ ہے کہ اگرچہ میری شاعری کلامِ نرم ونازک پر مشتمل ہے ’لیکن بے سمجھ لوگ اس سے مستفید نہیں ہوسکتے۔‘‘
اِس اسلوب میں بیان ہونے والا یہ خلاصہ ناقص ہے۔ اس شعر کا دوسرا مفہوم بھی نسبتاً زیادہ قطعیت کے ساتھ متعین کیا جا سکتا ہے۔  میری شاعری کلامِ نرم ونازک نہیں ہے کیوں کہ میرے مخاطب وہ نادان لوگ ہیں جن پر ایسا کلام اثر نہیںکرتا۔
یہ خلاصہ اقبال کے تصورِ شعر سے بھی مناسبت رکھتا ہے جو اقبال نے گویا عرفی کی اس ہدایت کی اتباع میںتشکیل دیا تھا:
حدی را تیز ترمی خواں چومحمل را گراں بینی
نوا را تلخ تر می زن چو ذوقِ نغمہ کم یابی

۳
میری نوائے شوق سے شور حریمِ ذات میں
غلغلہ ہائے الاماں بتکدۂ صفات میں
’’اقبال کہتے ہیں کہ میں اﷲ تعالیٰ کا دیدار براہِ راست کرنا چاہتا ہوں مگر چونکہ مادّی آنکھوں سے خدا کو دیکھنا ممکن نہیں اس لیے میںدیدارِ خداوندی سے محروم رہتا ہوں اورعالمِ فراق میں شدتِ جذبات سے فریاد کرنے لگ جاتا ہوں۔ یہ فریاد بلند ہو کر خدا کے حریم یعنی عرش تک جاپہنچتی ہے۔ عرش تک جاتے ہوئے اس فریاد کے راستے میں صفات کے بنائے ہوئے بت آتے ہیں جو فریاد کو عرش تک نہیں جانے دینا چاہتے (یعنی ہم نے خدا کی صفات کے بُت اپنے ذہنوں میں بنا رکھے ہیں یہ صفات کے بُت خدا کی راہِ راست تفہیم میں رکاوٹ ڈالنا چاہتے ہیں) مگر میری خواہش کے نتیجے میں بلند کی جانے والی فریاد میں اتنی شدت ہے کہ وہ صفات کے ان بتوں کو روندتی ہوئی عرش تک پہنچ جاتی ہے، چنانچہ صفات کے بت پریشان ہو کر شور مچانے لگ جاتے ہیں اور کہ اٹھتے ہیں کہ اس شخص سے خدا کی پناہ جو ہمیں راستے سے ہٹا کربراہِ راست عرش تک جاپہنچاہے۔
انسانوں کی ہمیشہ سے خواہش رہی ہے کہ وہ ذاتِ خداوندی کو براہِ راست دیکھ سکیں۔ حضرت موسیٰؑ کا کوہِ طور پر رب اَرنی کہنا بھی اسی خواہش کا اظہار تھا مگر آواز آئی، لن ترانی (تو مجھے نہیں دیکھ سکتا)۔ جب خدا کی تجلّی کا پر تونازل ہوا تو موسیٰؑ بے ہوش ہوگئے۔ گویا مادّی آنکھوں سے خدا کودیکھنا ممکن نہیں۔ اس کے باوجود خدا کو مادی آنکھوں سے دیکھنے کی خواہش ہمیشہ برقرار رہی ہے۔ اس شعر میں بھی اسی خواہش کا اظہار کیا گیاہے۔ مگر اشارۃً یہ بھی کہ دیا گیا ہے کہ اس خواہش میں کامیابی ممکن نہیں۔میں خواہ کتنا ہی شور مچائوں دیدارِ خداوندی میری قسمت میں نہیں، البتہ جن لوگوں نے صفات کے ان بتوں کو خدا سمجھ رکھاہے، ان کے بتکدے میری خواہش کی شدت سے مسمار ہو رہے ہیں، اس لیے وہ خدا سے پناہ مانگنے لگ گئے ہیں۔
اس شعر میں تقریباً وہی بات کہی گئی ہے جو اقبال اپنے اس مشہور شعر میںبہت پہلے کہ چکے تھے:
کبھی اے حقیقتِ منتظر نظر آ لباسِ مجاز میں
کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں مری جبینِ نیاز میں
فرق یہ ہے کہ زیرِ نظر شعر میں اتنا اضافہ کیا گیا ہے کہ میری اس خواہش سے اپنے ذہنوں میں صفات کے بتکدے بنانے والے لوگ خواہ مخواہ پریشان ہوگئے ہیں۔‘‘ ص۔ ۵،۶

تجزیہ:    غیر معیاری اسلوب، تفہیم عامیانہ اور یک سطحی
تبصرہ:    یہ شرح غلط اور سطحی ہے۔ فاضل شارح نے اس انتہائی کامل المعانی شعر کی بنیادی اصطلاحات سے کیا مفاہیم اخذ کیے ہیں!
شوق:         خدا کو مادی آنکھوں سے دیکھنے کی خواہش
نوائے شوق:  اس خواہش کا اظہار، عالمِ فراق میں شدتِ جذبات سے بلند کی جانے والی فریاد۔
حریمِ ذات:    خدا کا عرش، خدا کے رہنے کی جگہ
بت کدۂ صفات: انسانوں کے ذہن میں بنے ہوئے صفاتِ خداوندی کے بت جو خدا کی براہ راست تفہیم میں رکاوٹ ڈالنا چاہتے ہیں۔
یہ تمام مطالب ڈاکٹر صاحب ہی کے الفاظ میں نقل کیے گئے ہیں۔ ان کی درست شرح یہ ہے:
 ’نوائے شوق‘
۱:     عاشق کی پکار جس سے ہجرکا اٹل دکھ اور وصل کی نہ پوری ہونے والی آرزو یک جا ہوگئی ہو۔
۲:     اس عاشق کی فریاد جو:
    ۱ : ۲ غلبۂ حال کی وجہ سے وصل کا ناممکن ہونا فراموش کردے۔
    ۲ : ۲ صفات کا پردہ اٹھا کر ذات تک پہنچنے کا آرزومند ہو۔
    ۳ : ۲ عشق کے ان لامتناہی مطالبات کی تکمیل کے درپے ہو، جن کا ہدف ذاتِ الہیہ ہے،
    ماورائے صفات ذات۔
    ۴ : ۲ ذاتِ عبد کو ذاتِ معبود سے واصل کرنے کا متمنی ہو کہ دونوں کا امتیاز باقی اوربرقرار رہے۔
۳:    عاشق کے پورے وجود کا اظہار محبوب کے حضور میں۔
۴:    صدائے عشق جس کی رسائی حریمِ ذات تک ہے۔
حریمِ ذات:
لامکاں، ذاتِ الہیہ کا مکان جوجہات سے پاک ہے اور صفات سے ماورا۔
بت کدۂ صفات:
بت کدہ وہ عالم ہے جہاں کثرت نے وحدت، اعتبار نے حقیقت، باطن نے ظاہر، او رصورت نے معنی کی جگہ لے رکھی ہو۔ یعنی جو مقصود تک پہنچنے کا ذریعہ ہے وہ خود مقصود بن گیا ہو۔
بت کدۂ صفات کامطلب یہ ہے کہ صفات، ذات کی ضروری معرفت اور اس سے عملی وابستگی کا لازمی ذریعہ ہیں مگر مقصودِ حقیقی ذات ہی ہے جو تعین اور ظہورکو قبول نہیں کرتی۔ اس لیے صفات کو ذات کا مظہر یا عین سمجھنا گویا بت پرستی ہی کی ایک قسم ہے جس سے یہ لازم ہوتا ہے کہ چونکہ ذاتِ باری تعالیٰ قادر ہے، سمیع ہے، بصیر ہے، لہٰذا قدرت، سمع اور بصر بھی معبود ہیں۔

۴
حور و فرشتہ ہیں اسیر میرے تخیلات میں
میری نگاہ سے خلل تیری تجلیات میں
’’میرے تخیلات اتنے بلند ہیں کہ وہ حوروں اور فرشتوں کو قید کر لیتے ہیں یعنی میں جب چاہتا ہوں اپنے زورِ تخیل سے حوروں اور فرشتوں کو اپنے سامنے کھینچ لاتا ہوں۔ دوسرے مصرعے میں تخیل کی بلندی کی مزید شان یہ دکھائی ہے کہ میرا تخیل خدا کے جلووں کو بھی دیکھ لیتا ہے۔ گویا خدا کی تجلیات میں داخل اندازی کر ڈالتا ہے۔ خدا کی تجلّی کو برداشت کرنا کسی انسان کے بس کی بات نہیں۔ اقبال کہتے ہیں کہ خواہ میں مادی آنکھوں سے خدا کی تجلّی کو نہ دیکھ پائوں، تاہم زورِ تخیل سے اس کے جلوے ضرور دیکھ لیتاہوں۔
اقبال کی یہ احتیاط قابلِ داد ہے کہ انھوں نے مادّی آنکھوں سے خدا کو دیکھنے کا دعویٰ کرنے کی بجائے زورِ تخیل سے اس کا جلوہ دیکھنے کا دعویٰ کیا ہے۔‘‘

تجزیہ:    غیر موزوں اسلوب، عامیانہ تفہیم، بعض ضروری علوم سے بے توجہی
تبصرہ:    اس شعر کو گرفت میں لینے کی کوئی کوشش بارور نہیں ہو سکتی جب تک ’تخیلات‘، ’نگاہ‘ اور ’تجلیات‘ کی اصطلاحات کے معانی پر نظر نہ ہو۔ یہ کوئی بات نہ ہوئی کہ دو مصرعوں کو دو فقروں میں ڈھال کر شارح فارغ ہو جائے۔ ان اصطلاحات پر توجہ نہ کرنے کی وجہ سے نگاہ کو بھی تخیل کے معنی میں لیا گیاہے۔ ذیل میں ان اصطلاحوں کے معانی درج کیے جا رہے ہیں۔
تخیلات:    تخیل کی جمع، غیر محسوس کو محسوس بنانے کا ذہنی عمل۔
نگاہ:    وہ نظر جو:
۱۔    حقیقت کا مشاہدہ کرتی ہے۔
۲۔    ظاہر سے گزر کر باطن تک رسائی رکھتی ہے۔
۳۔    غیب کو شہود بنا لیتی ہے، یعنی جو چیزیں مشاہدے کی گرفت سے باہر ہیں انھیں بھی دیکھتی
    ہے اور دیکھنے کا یہ عمل تخیٔلی نہیں ہوتا بلکہ واقعی۔
۴۔    کائنات سے خالقِ کائنات تک جا پہنچتی ہے۔ صفات کا پردہ اٹھا کر مشاہدہ ٔذات کی
    طالب ہے۔
تجلیات:
۱۔    تجلّی کی جمع۔ جلوہ فرمائی، رونمائی
۲۔    صفاتِ الہیہ کے انوار کا ظہور جو وحدتِ ذاتی کی طرف اشارہ کرے۔
۳۔    شانِ ربوبیت کا اظہار
۴۔    ظہورِ صفات جو بلاواسطۂ مظاہر ہے اور لامتناہی۔
ان معانی تک پہنچنے کے بعد شعر کاضروری مطلب یہ ہوگاکہ عالمِ ملکوت میرے تخیل کی زد میں ہے اور عالمِ الوہیت اپنے مرتبۂ صفات میں میری نگاہ کی رسائی سے بالکل باہر نہیںہے۔ دونوں عالم چونکہ انسان کے لیے غیب ہیں اس لیے ان پر میرا تخیل ہو یا نگاہ، گراں ہے۔ اس سے ان کاغیاب پوری طرح محفوظ نہیں رہتا۔
خواجہ صاحب نے اقبال کو ان کی اس احتیاط پر داددی ہے کہ ’’انھوں نے مادی آنکھوں سے خدا کودیکھنے کا دعویٰ کرنے کی بجائے زورِ تخیل سے اس کا جلوہ دیکھنے کا دعویٰ کیا ہے۔‘‘ اقبال نے خدا کی تجلیات کو دیکھنے کا دعویٰ زورِ تخیل کی بنیادپر نہیں بلکہ چشمِ دل کے حوالے سے کیا ہے اور اس میں بھی یہ نزاکت ملحوظ رکھی ہے کہ یہ دید تجلیات کے کسی جزو کا بھی احاطہ نہیں کرسکتی۔ ’خلل‘ کا کلمہ یہ دلالت بھی رکھتا ہے۔

۵
گرچہ ہے میری جستجو دیر وحرم کی نقش بند
میری فغاں سے رست خیز کعبہ و سومنات میں
’’انسان ہمیشہ خدا کی تلاش میں رہا اور اس تلاش کے باوجود خدا نہ مل سکا تو اس نے اپنے اپنے مسلک کے مطابق مختلف عبادت گاہیں (دیر وحرم) بنائیں کہ شاید ان میں خدا مل جائے لیکن وہاں بھی جب خدا کی تجلّی نظر نہ آئی تو نامطمئن ہو کر انسان نے خدا کے حضور فریاد کی اور اسے دیکھنے کی خواہش کا اظہار کیا لیکن عبادت گاہوں کے متولی (یعنی کعبہ وسومنات کے اربابِ اختیار) انسانوں کی اس خواہش کو برداشت نہ کرسکے۔ انھوںنے انسانوں کو عبادت گاہوںتک محدود کرنا چاہا اور خداتک براہِ راست رسائی چاہنے والوں کے خلاف ہنگامہ کھڑاکر دیا۔‘‘ ص۔ ۶،۷

تجزیہ:    غیرموزوں اسلوب، غلط اور عامیانہ تشریح، تصوف کی علمیات سے بے توجہی
تبصرہ:     اس شرح سے مندرجہ ذیل نکات برآمد ہوتے ہیں۔ خواجہ صاحب غور فرما لیں کہ کیا وہ ان نتائج کو قبول کرنے کے متحمل ہو سکتے ہیں؟
۱۔    انسان خدا کی تلاش میں ناکام ہوگیا تو مذاہب اختراع کیے گئے۔
۲۔    وہ مذاہب بھی خدا تک پہنچانے میں ناکام رہے۔
۳۔    انبیا کے لائے ہوئے دین سے مایوس ہو کر انسان نے براہِ راست اﷲ سے فریاد کی کہ
    وہ خود کو اس کی آنکھوں پرمنکشف کردے۔
۴۔    عبادت گاہوں کے متولی اس خواہش کو برداشت نہ کرسکے۔ انھوں نے انسانوں کو جبراً
    اپنے اپنے دین کے نظامِ عبادات میں محدود رکھنا چاہا اور خدا تک براہِ راست رسائی
     چاہنے والوں یعنی (دین، کتاب اور نبی کا انکار کرنے والوں) کے خلاف ہنگامہ کھڑا کردیا۔
اس میں بھی وہی قصہ ہے۔ شعر کے کلیدی کلمات کو موردِ توجہ نہیں سمجھاگیا۔ ’دیر وحرم‘ اصطلاح میں ظہورِحق کے دو اصول ہیں جو کثرت ووحدت اور تشبیہ وتنزیہ پر دلالت کرتے ہیں۔ ’دیر‘ کا تعلق صفات سے ہے اور ’حرم‘ کا ذات سے۔ دیر وحرم، کعبہ وسومنات یوں تو ایک ہیں مگر اس شعر کی حد تک ان کے درمیان اصل وفرع کی نسبت کار فرما ہے۔ ’دیروحرم‘ اصل ہیں اور ’کعبہ وسومنات‘ ان کی فرع۔ اسی طرح ’نقش بند‘ خالق وصانع کے مفہوم میں نہیں استعمال ہوا، بلکہ اس سے مراد ہے اپنی سہولت کے لیے حقیقتِ محض کے تعینات کا تصور باندھنے والا اور حقیقت کو ازروئے اعتبار صورت میں ڈھالنے والا۔بالفاظِ دیگر وحدت وکثرت اور تنزیہ وتشبیہ کے تصورات کو عمل میں لانے والا۔ ’نقش بند‘ کو خالق وصانع سمجھنے سے یہ لازم آئے گا کہ خانہ کعبہ اﷲ کے حکم پر نہیں بلکہ خدا جوئی کے فطری داعیے کے دبائو پر تعمیر کیاگیا تھا۔ اسی طرح ’فغاں‘ کا لفظ بھی اس شعر میں اہم ہے۔ یہ ہجر اور ناکامی کے درد وغم کاوہ اظہار ہے جووصل سے مایوس ہو کر محبوب کو سنانے کے لیے کیا جائے۔ ’رست خیز‘ بھی شعر کی معنویت کے تعین میں ایک ضروری کردار رکھتا ہے۔ یہ ہنگامۂ قیامت ہے جہاں حقیقت، صورت کے تعینات کو فنا کرکے اپنا اظہار کرے گی۔ ظاہری کعبہ وسومنات چونکہ حقیقت کے لیے صوری تعینات کادرجہ رکھتے ہیں لہٰذا حقیقت سے براہِ راست نسبت کاقیام یا اس کاامکان ان میں تنزل کا سبب بن سکتاہے، یعنی صورت کی گرفت کمزور پڑنے لگتی ہے۔ یہ خیال رہے کہ یہاں صورت کوئی منفی مفہوم نہیں رکھتی، لہٰذا کعبہ وسومنات میں کوئی منفی پن دیکھنا درست نہ ہوگا۔ جوامر حقیقت کی صحیح اور محکم نسبت پر استوار ہو اور حقیقت تک رسائی کا قطعی وسیلہ ہو اس میں منفیت کا اثبات غلطی ہے۔

۶
گاہ مری نگاہِ تیز چیر گئی دلِ وجود
گاہ الجھ کے رہ گئی میرے توہمات میں
’’میں اپنی زندگی میں ہمیشہ دو متضاد کیفیات سے دوچاررہتاہوں۔کبھی تو میری نگاہیں اتنی تیز ہو جاتی ہیں کہ وہ کائنات کے تمام اسرار ورموز منکشف کر دیتی ہیں او رکبھی یہی نگاہیں اپنی ہی ذات کے پیدا کردہ شکوک وشبہات میں الجھ کر رہ جاتی ہیں۔ یعنی میرے معمولی وہم وگمان بھی مجھے پریشان کر دیتے ہیں۔
اقبال کائنات وحیات کے مسائل کے بارے میں بصیرت سے بہرہ ور تھے۔ اس لیے انھوں نے کہا ہے کہ انسان کتنا ہی صاحب نظر ہو، بلند وپست سے گزرتا رہتا ہے۔ کبھی بلندی خیال کے عروج پر ہوتاہے اور کبھی معمولی سا وسوسہ اور خوف بھی اس پر غلبہ پالیتاہے۔
شاعری کی تشریح میں یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ ’میں‘ یا ’میرے‘ کے الفاظ کے ذریعے جوکچھ کہا گیا ہے وہ لازماً شاعر اپنے بارے میں کہتاہے۔ بعض اوقات ’میں‘ انسانوں کی ایک علامت ہوتا ہے۔ اس صورت میں شعر کامطلب یہ ہوگا کہ بڑے بڑے صاحبِ بصیرت لوگ کبھی تو پیچیدہ مسائل کی گتھیاں فوراً سلجھا لیتے ہیں اور کبھی معمولی مسائل کی تفہیم سے بھی قاصر رہ جاتے ہیں۔ اس بات کو سعدی نے گلستان میں ایک درویش کی زبان سے یوں بیان کیاہے:
گہے برطارمِ اعلیٰ نشینم
گہے بر پُشت پائے خود نہ بینم
(ترجمہ: کبھی میں بلند مقام پرفائز ہوتا ہوں اورکبھی اپنے پائوں کی ایڑی کے پیچھے بھی نہیں دیکھ سکتا)۔‘‘

تجزیہ:    عامیانہ تفہیم، نامکمل تشریح
تبصرہ:    شرح کا مدار غلط بنایا گیا ہے۔ اس شعر میں انسان کاکوئی نفسیاتی تجزیہ نہیں کیا گیا بلکہ اس کی حقیقت کے قطبین بیان ہوئے ہیں۔ اور ’توہمات‘، ’معمولی معمولی وہم وگمان‘ نہیں ہیں۔ امام العارفین شیخ اکبر محی الدین ابنِ عربی نے وہم کو سلطان العارفین کہا ہے، یعنی توہم (وہم میں آنایا لانا) مابعد الطبیعی امور میں منتہائے معرفت ہے۔ اس کی بنیاد پر غیب کے موجود ہونے کا یقین فراہم ہوتا ہے۔اقبال نے گو کہ ’توہمات‘ کو اپنی کمزوری کے معنی میں اور ایک منفی مفہوم میں برتا ہے، تاہم اس کے باوجود انھیں وساوس کی سطح تک لے آنے کا کوئی جواز اور کوئی قرینہ شعر میں موجود نہیں ہے۔ انسان کی حقیقی استعدادِ معرفت جن دوسروں سے عبارت ہے وہ یہاں بیان ہوئے ہیں، یعنی تحقق (Realisation) اور اعتبار علم ومعرفت ان دونوں سے مرکب ہے۔ان میں سے کوئی ایک جز بھی منہا نہیں کیا جاسکتا۔
کیا اس شعر کا مرکزی خیال یہ نہیں ہے کہ انسان کبھی حقیقت تک پہنچ جاتا ہے اور کبھی اعتبار میں الجھ کر رہ جاتا ہے؟ اعتبار یعنی حقیقت کا واجب الاثبات تصور! یہ تصور حقیقت کو محیط نہیں ہے مگر اسی پر قائم ہے۔بالکل اسی نسبت کے ساتھ جوشخص وعکس اور اصل وظل میں کارفرما ہے۔
خواجہ صاحب چاہتے تو علامہ کے فکری مرتبے کی رعایت سے اس شعر سے ان کا تصورِ علم بھی برآمد کرسکتے تھے۔

۷
تونے یہ کیا غضب کیا مجھ کو بھی فاش کر دیا
میں ہی تو ایک راز تھا سینۂ کائنات میں
’’کائنات انسان سے بہت قدیم ہے بلکہ ہمارے عقیدے کے مطابق جن، فرشتے اور شیطان بھی انسان سے قدیم تر ہیں۔ علمِ حیاتیات کے مطابق نباتاتی اور حیوانی زندگی انسان سے کہیں زیادہ پرانی ہے۔ گویا اس بات پر اتفاق ہے کہ انسان دنیا میں سب کے بعد پیدا ہوا۔ تاہم انسان سے پہلے جتنی مخلوقات تھیں وہ انسان جیسی ذہین اور ذی شعور نہیں تھیں۔
خدا نے جب انسان کو پیدا کیا تو اسے علم سکھایا جس سے دوسری مخلوقات محروم تھیں اور اس کی فطرت میں یہ مادّہ رکھا کہ وہ اپنے علم اور شعور کے ذریعے کائنات کے اسرار ورموز کو سمجھنے کی کوشش کرے۔ گویا کائنات کے اسرار کو منکشف کرنے والی شخصیت کو پیدا کرنے کا مطلب یہ تھا کہ کائنات کے جملہ رازوں کو سب پر ظاہر کر دیا جائے۔ ’میں ہی تو ایک راز تھا‘ کا ٹکڑا ظاہر کرتا ہے کہ سارے رازوں کا راز داں ایک ہی تھا یعنی انسان، گویاانسان کو وجود میں لا کر اﷲ تعالیٰ نے کائنات کے تمام سربستہ رازوں کو ظاہر کرنے کا سامان خود ہی مہیا کر دیا۔‘‘ ص۔ ۷،۸

تجزیہ:     نامکمل اور عامیانہ
تبصرہ:    بات انسان کے شعور اور ذہانت کی نہیںہورہی بلکہ اس کی حقیقت اور وجودی مرتبے کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ ’راز‘ کا کوئی تعلق ’کائنات کے اسرار ورموز‘ سے نہیںہے۔ یہ بالکل سامنے کا نکتہ نظر انداز ہو جانے سے تفہیم کا رُخ غلط سمت میں ہو گیا اور سطح بھی گر گئی۔ اس شعر میں انسان اپنے علم اور شعور کے ذریعے سے کائنات کے اسرار ورموز کو سمجھنے کی کوشش کرنے والا نہیں بلکہ خود حقیقتِ کائنات ہے۔
تفہیم بالِ جبریلکا ایک بڑا نقص یہ بھی ہے کہ اقبال کے بہت بنیادی تصورات کو ایک معمولی دماغ میں پیدا ہونے والے خیالات بنا کر رکھ دیاگیا ہے۔ اس شعر کے ساتھ بھی یہی ستم ظریفی ہوئی ہے۔ اقبال حقیقتِ انسان کا بیان کر رہے ہیں جو سرِّو جود اور غایت ہستی ہے، خواجہ صاحب اس سے کوئی سائنس دان وغیرہ مراد لے رہے ہیں۔ اقبال انسان کو مقصودِ کائنات کہ رہے ہیں اور خواجہ صاحب کائنات کو مقصودِ انسان بتاتے ہیں۔

۸
اگر کج رو ہیں انجم آسماں تیرا ہے یا میرا
مجھے فکرِ جہاں کیوں ہو، جہاں تیرا ہے یا میرا
’’اے خدا! اگر ستارے ٹیڑھی چال چل رہے ہیں اور ان کی کج روی کے باعث دنیا پر برے اثرات مرتب ہو رہے ہیں تو اس کا ذمہ دار میں نہیں بلکہ تو ہے۔ دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے، اچھا ہے یا برا اس کی فکر کرنے کی مجھے کوئی ضرورت نہیں ہے۔ دنیا تیری تخلیق کی ہوئی ہے اس لیے دنیا کے افعال کا ذمہ دار تو ہے میں نہیں ہوں۔‘‘  ص۔۸
واضح رہے کہ اس شعر میں(بلکہ پوری غزل میں) تیرا کا اشارہ خدا کی طرف ہے اور میرا کا اشارہ انسان کی طرف۔
اقبال اس شعر میں یہ کہتے ہیں کہ خدا کائنات اور جہان کا خالق ہے اور مالکِ تقدیر ہے اس لیے اگر دنیا میں خرابیاں ہیں تو مجھے فکر مند ہونے کی ضرورت نہیںہے۔ اس کی فکر مالکِ کائنات کو خود ہی ہونی چاہیے۔
اقبال اپنے کلام میں بعض جگہ انسانوں کی نمائندگی کرتے ہوئے خاصے بے باک ہو جاتے ہیں اور بعض اوقات ان کا لہجہ اعتراضات کی زد میں آجاتا ہے۔ اس لہجے کی ایک نمایاں مثال نظم ’شکوہ‘ ہے جب کہ یہ غزل بھی تقریباً اسی انداز کی ہے۔‘‘ ص۔  ۸

تجزیہ:    غلط اور نامکمل تفہیم، غیر موزوں اسلوب
تبصرہ:    اس غزل کی تفہیم کا آغاز ہی اس پس منظر میں ہونا چاہیے تھا کہ یہاں اقبال نے ایک اونچی سطح پر انسان کو اﷲ سے ہم کلام کر دکھایا ہے جس میں تمام بڑے موضوعات اور حقائق کا احاطہ ہوگیا ہے۔ یہ غزل ایک بہت بڑے منظر کی طرح ہے۔ اس کے ایک سرے پر انسان ہے اور دوسرے پر خدا اور درمیان میں وجود، تقدیر اور کائنات کا پورا پھیلائو۔ وجود کے قطبین یعنی خدا اور انسان اور وجود کی تثلیث یعنی خدا، انسان اور کائنات کی ایسی ڈرامائی صورت گری اپنی تفہیم میں معنی کی بلند ترین سطحوں سے اتارا جانا روا نہیں رکھتی۔
الفاظ کے عامیانہ درجے پر مستعمل اور متعین مفاہیم سے ضمناً بھی کوئی سروکار رکھنا، انسانی تخیل میں صورت پکڑنے والی اس عظیم ترین معنویت کو جو اس فضا میں گندھی ہوئی ہے، غارت کر سکتی ہے۔
اس شعر میں جو الم ناکی، بے بسی اور فکر مندی پائی جاتی ہے، تشریح میں اس کی طرف کوئی اشارہ نہیں ملتا بلکہ ایسا لگتا ہے کہ ایک بے حس اور لاپروا آدمی مقصدِ تخلیق کا انکار کرکے اپنے خالق سے کٹ حجتی اور گستاخی پر اتر آیا ہے۔

۹
اگر ہنگامہ ہائے شوق سے ہے لامکاں خالی
خطا کس کی ہے یارب! لامکاں تیرا ہے یا میرا
’’خدا عرشِ معلی کا مکیں ہے اور عرشِ معلی کو لامکاں بھی کہا جاتاہے۔ اگرچہ وہ لامحدود ہے مگر اُس میں ہُو کا عالم طاری رہتا ہے اور وہاں کسی کو دم مارنے کی مجال نہیں ہے۔ جب کہ دنیا ایک ایسی جگہ ہے جہاں محبت کرنے والے اور اس میں ناکام ہو کر فریاد کرنے والے لوگ موجود ہیں۔ دنیا میں لوگوں کو اپنی تمنائوں کے حصول کی شدید خواہش رہتی ہے مگر ان کا حصول ممکن نہیں ہوتا، اس لیے عشق انھیں مصروفِ ہنگامہ رکھتا ہے۔ گویا دنیا اگرچہ پریشان کن جگہ ہے مگر اس کے ہنگامہ خیز اور دلچسپ ہونے میں کوئی شبہ نہیں جب کہ لامکاں پر سکون ہے مگر غیر دلچسپ۔ بقول اقبال اگر لامکاں کی عافیت کوشی دلکش ہنگاموں سے تہی ہے تو اس کا ذمہ دار اﷲ ہی ہے جس نے اپنے لیے لامکاں کی تنہائی پسند کی ہے۔‘‘  ص۔ ۸،۹

تجزیہ:    نامکمل تفہیم، غیر موزوں اسلوب، عارفانہ روایت سے ناواقفیت
تبصرہ:    اس شرح میں غلطی بھی ایسی ہے گویا ابھی ایجاد کی گئی ہے۔ گو کہ یہ کوئی اچھا شعر نہیں ہے اور اعتراض کی بھی خاصی گنجائش پائی جاتی ہے تاہم اقبال کی کمزوری بھی کسی معمولی ذہن کی کمزوری نہیں ہے، جیسی کہ خواجہ صاحب کے بیان سے ظاہر ہوتی ہے۔ نہ خدا عرشِ معلی کا مکین ہے نہ عرش معلی لامکاں ہے نہ لامکاں کوئی ایسی جگہ ہے جہاں سناٹا چھایا رہتا ہے اور کسی کو دم مارنے کی مجال نہیں۔ نہ لامکاں کا اس روز مرہ کی دنیا سے کوئی تقابل کیا جا رہا ہے۔ غرض ہر پہلو سے کوئی نہ کوئی غلطی برآمد ہوتی ہے، مثال کے طور پر :
۱۔ لامکاں پر سکوں ہے مگر غیر دلچسپ، ۲۔ لامکاں کی عافیت کوشی دلکش ہنگاموں سے تہی ہے، ۳۔ اﷲ نے اپنے لیے لامکاں کی تنہائی پسند کی ہے۔
ذرا خیال تو فرمائیے کہ ان باتوں سے کیا نتائج برآمد ہوتے ہیں:
۱۔    اﷲ کے لیے کوئی چیز دلچسپ یا غیر دلچسپ ہو سکتی ہے، یعنی اس کے ہاں بھی انسانوں جیسی طبیعت اور میلانات پائے جاتے ہیں۔
۲۔     خدا، نعوذ باﷲ، عافیت کوش ہے۔
۳۔    لامکاں کوئی ایسی جگہ ہے جو خدا سے پہلے موجود تھی وغیرہ وغیرہ۔
ظاہر ہے کہ شارحِ محترم ان نتائج کا وسوسہ بھی نہیں رکھتے ہوں گے لیکن عجزِ بیان اور ان موضوعات کے نامانوس ہونے کی وجہ سے یہ بے احتیاطیاں ان کے ذہن سے نہیں بلکہ ان کے قلم سے سرزد ہوئی ہیں۔
میں خود اس شعر کی شرح اس لیے نہیں کرنا چاہتا کہ مجھے یہ شعری اعتبار سے معمولی اور فکری اعتبار سے غلط اور قابلِ اعتراض لگتا ہے۔ تاہم اتنی بات ضرور عرض کروں گا اس معمولی اور جذباتی شعر میں حقیقتِعشق کو اس کے انتہائی تناظر میں برسرِ عمل دکھایا گیا ہے۔ انسان عاشق ہے اور اﷲ محبوب۔ انسان تو اپنے عشق کے تجربے سے بہرہ مند ہے لیکن اﷲ جس ’ماحول‘ میں رہتا ہے وہاں محبوبیت کے احوال کا قیام اور اصول ممکن نہیں۔ خدا کی وحدت اور اکملیت نے اسے بالکل تنہا کر دیا ہے اور یہ تنہائی بھی ایسی ہے کہ اس میں کسی طرح کے تغیر کاکوئی امکان نہیں۔ اس شعر میں بنیادی طور پر یہی کہا گیا ہے کہ جو میںنے نعوذ باﷲ پڑھ کر لکھا۔ ایک اور مطلب بھی نکلتا ہے کہ خدا کے سامنے کوئی مقصود نہیں ہے جسے حاصل کرنے کی کوشش خود اس کے ارتقا اور اکمال کا سبب بنے۔ یہ مضمون بھی شعر میں اپنا قرینہ رکھتا ہے۔

۱۰
اسے صبحِ ازل انکار کی جرأت ہوئی کیونکر
مجھے معلوم کیا، وہ رازداں تیرا ہے یا میرا
’’اُسے، کا اشارہ ابلیس کی طرف ہے۔ صبحِ ازل جب خدا نے آدم کو پیدا کیا تو تمام فرشتوں نے خدا کے حکم پرآدم کو سجدہ کیا مگر ابلیس نے انکار کر دیا۔ اس پر وہ راندۂ درگاہ ہوگیا اور اس وقت سے اس کا کام انسانوں کو بہکانا ہے۔
بعض صوفیہ نے ابلیس کے انکار کی مختلف توجیہیں کی ہیں۔ کچھ حضرات کا خیال ہے کہ ابلیس کٹر توحید پرست تھا اس لیے وہ خدا کے سوا کسی کو سجدہ نہیں کرنا چاہتا تھا۔ اقبال کا خیال ہے کہ دنیا میں خیر کا وجود شر کی وجہ سے قائم ہے۔ اگر خیر ہی خیر ہو تو کسی کو اس کا احساس بھی نہیں ہو سکتا کہ خیر اچھی چیز ہے۔ چیزیں اپنے تضاد سے پہچانی جاتی ہیں۔ ابلیس نے خدا کے فرمان کے باوجود آدم کو سجدہ کرنے سے انکار اس لیے کیا تھا کہ وہ انسان کے لیے دنیا میں خیر اور شر کا تصادم پیدا کرکے خیر کی قوتوں کو مہمیز کرنا چاہتا تھا۔ اس لیے ابلیس کا یہ انکار درحقیقتِ انسان کی بہتری کے لیے تھا۔ پیامِ مشرق کی نظم ’تسخیرِ فطرت‘ کے پانچویں حصے ’صبحِ قیامت‘ میں اقبال نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ ابلیس قیامت کے دن اپنا دفاع اسی انداز میں کرے گا۔
تاہم اس شعر میں اقبال نے قدرے مختلف بات کہی ہے۔ یہاں ان کا یہ کہنا ہے کہ ابلیس کو خدا کے حکم کے آگے انکار کی جرأت ہو ہی نہیں سکتی تھی۔ غالباً یہ انکار خدا کے ایما پر کیا گیا تھا۔ چونکہ ابلیس خدا کے مقرب ترین فرشتوں میں شامل تھا، اس لیے امکان یہ ہے کہ اس انکار میں رضائے خداوندی شامل تھی۔‘‘  ص۔ ۹

تجزیہ:    نامکمل اور سطحی تفہیم
تبصرہ:    یہ تشریح بھی ایسی ہے کہ قاری ایک خاص سطح پر اُترے  بغیر اس سے مستفید نہیں ہو سکتا۔
۱۔ ’’اقبال کا خیال ہے دنیا میں خیر کا وجود شر کی وجہ سے قائم ہے۔‘‘ یہ خیال اس شعر میں تو نہیںپایا جاتا، علامہ نے کہیں اور بیان کیا ہو تو اس کا حوالہ دینا چاہیے تھا۔ شر کا مقوّمِ خیر ہونا خواہ اس دنیا میں سہی، ایک بالکل غلط تصور ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ شر سے خیر کی پہچان میسر آتی ہے لیکن اس سے تجاوز کرکے خیر کے قیام ہی کو شر پر منحصر کر دینا سخت غلطی ہے۔ خواجہ صاحب اتنی ہی بات کہنا چاہتے ہیں اور یہی کہی بھی ہے لیکن موضوع اور اسلوب کی اجنبیت کی وجہ سے اس طرح کی لغزشیں ان سے بار بار سرزد ہوتی ہیں۔
۲۔ ’’ابلیس نے خدا کے فرمان کے باوجود آدم کو سجدہ کرنے سے انکار اس لیے کیا تھا کہ وہ انسان کے لیے دنیامیں خیر اور شر کا تصادم پیدا کرکے خیر کی قوتوں کو مہمیز کرنا چاہتا تھا۔ اس لیے ابلیس کا یہ انکار درحقیقت انسان کی بہتری کے لیے تھا۔‘‘
یہ پوری بات اس شعر کی فضا سے لگّا نہیں کھاتی۔ مانا کہ پیامِ مشرق میں اقبال نے ابلیس سے اپنا دفاع اسی پوچ اور بے اصل دعوے اور استدلال پر کروایا ہے، مگر اِس کا اس شعر سے کیاتعلق۔ اس شعر میں تو گویا خدا کی شیطان سے نفرت کو فوکس (focus) کیا گیا ہے اور شیطان سے نقصان اٹھانے والے انسان کی زبان سے خدا کو اسی مصلحت کی طرف متوجہ کیا گیا ہے جو تخلیقِ ابلیس میں اس کے پیشِ نظر رہی ہوگی۔ نیز خدا اور شیطان کے اس قدیم تعلق کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو ابلیس کے انکار سے پہلے تک خود فرشتوں کے لیے موجبِ رشک تھا۔ اقبال اس تقرب کو حوالہ بنا کر انکارِ ابلیس کو ایمائے خداوندی پر مبنی قرار دے رہے ہیں جس کا علم ان دونوں کے سوا کسی کو نہیں۔ وہ مقربِ خاص جو رضا اور ایما کو اپنی قیمت پر پورا کر دکھائے، وہ بھلا واضح حکم سے سرتابی کر سکتا تھا؟
خواجہ صاحب نے بھی یہی بات کہی ہے مگر جس سطح پر لے جا کر کہی ہے اس سے بہتر تھا کہ کاش نہ کہتے۔
اس شعر میں محض ’رازداں‘ ہی کو کھول دیا جاتا تو اس کے شایانِ شان مفاہیم خود بخود ذہن کی گرفت میں آتے چلے جاتے۔

۱۱
محمدؐ بھی ترا، جبریل بھی قرآن بھی تیرا
مگر یہ حرفِ شیریں ترجماں تیرا ہے یا میرا
’’یہ شعر بالِ جبریل کے انتہائی مشکل اور مبہم اشعار میں سے ہے۔ اس پر بڑی بحث ہو چکی ہے اور ہر شارح اس کے بارے میں مختلف رائے رکھتا ہے۔ اس شعر کی بنیادی الجھن ’حرفِ شیریں‘ کی ترکیب ہے۔ یوسف سلیم چشتی کے بقول اس سے مراد ’جذبۂ عشق‘ ہے۔ مگر شعر میں ایسا کوئی قرینہ موجود نہیںجس سے یہ مفہوم اخذ کیا جائے۔ بعض حضرات کے نزدیک اس سے مراد قرآنِ پاک ہے مگر یہ اس لیے درست نہیں کہ ’قرآن‘ پہلے مصرعے میں موجود ہے اور دوسرے مصرعے میں حرفِ جزا ’مگر‘ کے بعد ’قرآن‘ کا لفظ دوبارہ لانا موزوں نہیں۔ ’مگر‘ کے بعد دوسرے مصرعے میں پہلے مصرعے کے کسی بنیادی لفظ کی تکرار نہیں ہونی چاہیے۔
میرے خیال میں اس شعر کی اصل الجھن اس کی ردیف ہے، ’تیرا ہے یا میرا‘ جو پوری غزل میں دہرائی گئی ہے۔ اس غزل کے باقی تمام اشعار میں ’تیرا ہے یا میرا؟‘ کے سوال کا جواب ہے ’تیرا‘ مگر زیرِ نظر شعر میں اس کا جواب ہے ’میرا‘ … یہ کوئی فنی خامی نہیں ہے۔ شاعر ردیف کو کسی طرح بھی بلوانے کا اختیار رکھتا ہے۔
اب شعر پر غور۔ اقبال خدا سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں کہ آنحضورؐ بھی تیرے، جبریل بھی تیرے حکم کا پابند اور قرآن بھی تیرے ہی الفاظ…گویا خدا آنحضورؐ کو جبریل کے ذریعے اپنے احکامات قرآن کے الفاظ میں پہنچاتا ہے تو اس میں دم مارنے کی مجال نہیں ہو سکتی، گویا سب کچھ تیرا ہی تیرا ہے۔ کائنات بھی تیری، کائنات کا افضل ترین بشر بھی تیرا اور اس تک پہنچنے والے احکامات بھی تیرے۔ اب سوال یہ ہے کہ میرے پاس یعنی انسان کے پاس کیارہ جاتا ہے؟ اقبال کہتے ہیں کہ انسان کے پاس ’شیریں الفاظ‘ ہیں یعنی اس کی گفتگو … انسان جب زندگی کے متنوع تجربات سے گزرتا ہے تو ان تجربات کو شیریں الفاظ کا روپ دے کر امر کر دیتا ہے اور انھیں خوب صورت انداز میںدوسروں تک پہنچا دیتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں انسان اپنے شیریں اور مترنم کلمات کی بدولت ایک تخلیق کار کا درجہ رکھتا ہے اور اس کے الفاظ اس کے جذبات وتجربات کی ترجمانی عمدہ انداز میں کرتے ہیں۔ اقبال نے اپنے آپ کو تخلیق کاروں کے نمائندے کے طور پر پیش کرتے ہوئے لفظ ’میرا‘ سے تمام تخلیق کاروں کی اعلیٰ درجے کی تخلیقات مراد لے رہے ہیں۔
گویا سب کچھ خدا کا ہے مگر انسان کے شیریں الفاظ (فنونِ لطیفہ) صرف اسی کے جذبات اور احساسات کی ترجمانی کرتے ہیں۔ مزید وضاحت کے لیے پیامِ مشرق کی نظم ’محاورۂ مابین خدا وانسان‘ ملاحظہ کیجیے جس میں انسان کو کائنات کے اندر ایک تخلیق کار کا درجہ دیا گیا ہے۔ یہی بات اقبال نے ایک فارسی شعر میں یوں کہی ہے:
جہاں او ساخت ایں او خوبتر ساخت
مگر با ایزد انباز است آدم
(ترجمہ: اس نے جہان کو بنایا، اس نے اسے بہتر بنایا، شایدانسان خدا کے ساتھ تخلیق میں حصہ دار ہے۔)‘‘ ص۔ ۹،۱۰

تجزیہ:    نامکمل تشریح، غیر موزوں اسلوب
تبصرہ:     تشریح کا نقص واضح کرنے کے لیے اس شعر کے معنوی نکات کو الگ سے بیان کردینا شاید کافی رہے گا۔
۱۔ اے اﷲ تیری ترجمانی کے لیے تو محمد صلی اﷲ علیہ وسلم بھی ہیں، جبریل بھی ہیں اور قرآن بھی۔ آخر میرا بھی تو کوئی ترجمان ہونا چاہیے۔ سو یہ ’حرفِ شیریں‘ یعنی یہ نوائے شوق اور جذبۂ عشق کا اظہار ہی وہ چیزہے جو تیری جناب میں میری ترجمانی کرتی ہے۔
۲۔ رسول اﷲصلی اﷲ علیہ وسلم، جبریل اور قرآن سے تو ’ظاہر ہے او ریہ نغمۂ محبت جو میرے سینے سے بلندہو کرزبان سے جاری ہو رہاہے، میرا اظہار ہے۔
۳۔ وحی تیرا پیغام ہے میری طرف اور یہ ’حرفِ شیریں‘ میرا جوابی پیغام ہے تیرے حضور میں۔
۴۔ مانا کہ پورا عالمِ وجود تیرا ہی مظہر ہے، مگر سمجھ میں نہیں آتا کہ اس جذبۂ عشق میںجو میرے حرف حرف کے اندر سمایا ہواہے، کس کا ظہور ہے؟
تیرا یا میرا یا دونوں کا؟ کہیں ایسا تو نہیںکہ محبت ہی نے تجھے بھی ظاہرکیا اور مجھے بھی مراد تک پہنچایا۔
’حرفِ شیریں‘ کی مراد تک پہنچنے کے لیے ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا صاحب نے راستا صحیح چنا لیکن ظاہر ہے وہاں تک نہیں پہنچ سکے جہاں تک پہنچنا چاہیے تھا۔ انھوں نے ’حرفِ شیریں‘ کو تجربات کے خوب صورت اظہار تک محدود کردیا۔حالانکہ یہ عاشق کا وہ خطاب ہے جو محبوب کے لیے ہو اور اسے خوش کردے۔

۱۲
اسی کوکب کی تابانی سے ہے تیرا جہاں روشن
زوالِ آدمِ خاکی زیاں تیرا ہے یا میرا
’’اے خدا تیری دنیا کی چمک دمک جس ستارے کی روشنی سے قائم ہے وہ ستارہ انسان ہی ہے۔ دنیا تو انسان سے پہلے بھی موجود تھی مگر سنسان اور ویران تھی۔انسان نے دنیا میں آکر اسے خوب صورت بنایا اور آباد کیا۔ اگر انسان مٹ گیا یااس کی اعلیٰ تخلیقی صلاحیتیں جاتی رہیں تو یہ دنیاپھر سے ویران ہو کر تاریک سیّارے میں بدل جائے گی۔گویا انسان کا زوال دنیا کا زوال ثابت ہوگا اور یہ دراصل خدا کا نقصان ہوگا کیوں کہ اس کی بنائی ہوئی دنیاانحطاط پذیر ہو جائے گی۔‘‘ ص۔ ۱۱

تجزیہ:    نامکمل تفہیم، غیر موزوں اسلوب
تبصرہ:    اتنا خوب صورت شعر اس سطحِ تفہیم پر اتر کر ایک عام سی بات بن کر رہ گیاہے۔
معمولی الفاظ کسی بڑے معنی کو سکیڑ کر ایک ناقابلِ التفات مفہوم سے بدل دیتے ہیں۔ یہ مفہوم خواہ درست ہی کیوں نہ ہو، اس معنویت سے نسبت او رمطابقت سے محروم ہو جاتا ہے جو گویا معنی کا اصل پیکر ہے۔ شعر کی معنویت کو اس کے فکری اور جمالیاتی درو بست سے منقطع کرکے محض ایک سیدھی سی بات بنا دینے کا یہ عمل شاعری کے نظامِ فہم اور آدابِ ذوق سے بری طرح متصادم ہے۔
مثال کے طور پر یہ شعر سمجھائے جانے سے زیادہ دکھائے جانے کا تقاضا کرتا ہے۔ اس کی شرح کوکب= ستارہ اور زیاں= نقصان کی نہج پرنہیں ہو سکتی۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ یہ شعر خوب صورتی کی جیسی وسعت اور پیچیدگی رکھتا ہے اسے کھولا جائے۔ ’کوکب‘ اور ’آدمِ خاکی‘ میں کئی نسبتیں ہیں انھیں دریافت کیے بغیراس شعر پر کسی بامعنی گفتگو کا ڈول نہیںڈالا جا سکتا۔
۱۔ اسی طرح ’زوال‘ کوکب اور آدمِ خاکی کے ساتھ ایک دُہری مگر پیچیدہ نسبت رکھتا ہے۔ اس کا ادراک بھی ضروری ہے ورنہ یہ شعر لغات کھنگالنے کے باوجو دبند دروازے کی طرح رہے گا۔
مثال کے طورپر:
۱۔ ’کوکب‘ یعنی ستارئہ بزرگ ستاروں کی دنیامیں وہی مرکزی حیثیت رکھتا ہے جو موجودات کے عالم میں ’آدم خاکی‘ کوحاصل ہے۔
۲۔ آدمِ خاکی کو ’کوکب‘ کہنے کے بعد ’کوکب‘کا نوری/ سماوی ہونا محذوف کرکے اور ’آدم‘ کے ’خاکی‘ ہونے کی تصریح کرکے کئی نکتے پیدا کیے گئے ہیں۔
۱:۲۔  ’کوکب‘ صرف آسمانی ہے جب کہ ’آدم‘ محض ’خاکی‘ نہیں ہے۔
۲:۲۔  انسان صورتاً خاکی اور حقیقتاً سماوی ہے۔
۳:۲۔  ’خاکی‘ ہونا انسان کی جہتِ ادنیٰ ہے اور اس کا بھی یہ مرتبہ ہے کہ سماویات اس سے کمتر ہیں۔
 یعنی اس کا ’خاکی‘ ہونا بھی دوسروں کے آسمانی ہونے سے افضل ہے۔
۴:۲۔  یہاں ایک اصول برت کر دکھایا گیا ہے۔ کسی چیزکا شرف اس وقت کلّی، مطلق اور حقیقی مانا جائے گا جب اس کی تعریف (definition) کا ادنیٰ جز بھی مقابل کی اعلیٰ جہت سے برتر ثابت ہو جائے گا۔
۵:۲۔  انسان، معنی کے ارضی سیاق وسباق میںبھی کائنات کے آخری حدود تک رسائی رکھتا ہے، کیوں کہ وہ ’خاکی‘ ہونے کی حالت میں ’کوکب‘ بھی ہے۔
۶:۲۔  آسماں، تقدیر کا محل ہے اور ’کوکب‘ اس کا ترجمان، اسی طرح زمین، تاریخ کی کارگاہ ہے اور ’آدم‘ اس کا مظہر۔ ’آدم‘ کو ’کوکب‘ کہ کر یہ دکھایا گیا ہے کہ انسان نے تقدیر اور تاریخ کو ایک کردیا ہے۔

۱۳
گیسوئے تابدار کو اور بھی تابدار کر
ہوش و خرد شکار کر، قلب و نظر شکار کر
’’اے محبت اپنے خوب صورت گیسوئوں کو اور زیادہ خوب صورت بنا تاکہ میں ان گیسوئوں کے جال سے کبھی باہر نہ نکل سکوں۔ اس طرح تو میری ہوش، عقل، دل اور نظر کو شکار کر لے تاکہ میں ہمیشہ کے لیے تیرا اسیرہو جائوں۔
صوفیانہ شاعری میں خدا کو عموماًدنیوی محبوب کے روپ میں ظاہر کیاجاتا ہے اور اس کے ساتھ وہ تمام خصوصیات وابستہ کر دی جاتی ہے جو محبوبِ مجازی کے لوازم میں ہیں۔ اس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ لوگ عشقِ حقیقی کو پہچان کر عشقِ مجازی کے تجربات کی روشنی میں بہتر طور پرسمجھ سکتے ہیں۔‘‘
اقبال کا تخاطب یہاں اﷲ سے ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ خدا کے ساتھ اس کا تعلق ہمیشہ مضبوط رہے اور اﷲ کی ذات میں ہمیشہ اسے اتنی کشش محسوس ہو کہ وہ اسی کا ہو کر رہ جائے۔‘‘ ص۔ ۱۱

تجزیہ:    نامکمل اور سطحی شرح، غیر موزوں اسلوب، عرفانی دائرے کی مصطلحات سے بے توجہی
تبصرہ:    ’گیسو‘ اور ان کی ’تابداری‘، ’ہوش‘، ’خرد‘، ’قلب‘، ’نظر‘ یہ سب بہت بنیادی اصطلاحات ہیں۔ ان اصطلاحات کے فہم پر شعر کی معنویت کا حصول موقوف ہے۔ ’گیسو‘ وہ شانِ اخفا ہے جو جمال کے معنی کو اس کی صورت پر غالب رکھتی ہے تاکہ محدودیت کا نقص نہ پیدا ہو۔
’گیسوئے تابدار‘ سے مراد ہے:
۱۔  تجلیِ جمال جو شانِ تنریہ کے منافی نہ ہو۔
۲۔  مخفی کو مخفی تر اور ظاہر کو ظاہر تر کرنے والی تجلی۔
۳۔  کششِ الہیہ کا وہ درجہ جہاں حصول بھی یقینی ہے اور بے حصولی بھی۔ یہاں قرب کا نشاط اور اٹل دوری کا قلق ایک کیفیت میں ڈھل جاتاہے۔
۴۔  وہ تجلی جس سے ظہور وخفا اور جمال وجلال کی عینیت کا انکشاف ہوتا ہے۔
۵۔ ذات کا پردۂ جمال
ایک گیسوئے تابدار میں عرفانی عشقیہ شاعری کے تناظر میں اتنی معنوی جہتیں پائی جاتی ہیں اور یہ سب کی سب اس شعر میں کار فرما ہیں۔ اسی طرح دیگر کلمات کو دیکھ لیناچاہیے۔
۱۔ ہوش وخرد
ہوش سے مراد ہے شعور جو حواسِ خمسہ سے پیدا ہوتا ہے اور اس شعور کی ترقی یافتہ صورت کو عقل (یعنی خرد) سے تعبیر کرتے ہیں۔ (شرحِ بالِ جبریل، یوسف سلیم چشتی، ص ۔۹۷)
۲:۱۔  اپنا احساس اور دوسرے کی خبر۔ ’ہوش‘ سے مراد ہے یہ احساس کہ میں ہوںاور ’خرد‘ سے مراد ہے یہ شعور کہ کائنات ہے۔
۳:۲۔  ہوش کا تعلق حس اور حال سے ہے اور ’خرد‘ کا ذہن اور استدلال سے۔
۴:۲۔  ’ہوش وخرد شکار کر‘ کا مطلب ہے حبِ عقلی عطا فرما۔
۲۔ قلب ونظر
۱:۲،  دل جو محبوب کی معرفت کے لیے ہے او رچشمِ دل جو محبوب کے دیدار کے لیے ہے۔
۲:۲،  ’نظر‘ اگر فکر کے ساتھ استعمال ہو تو اس کے معنی ہوں گے استدلال اور خیال، اور اگر قلب کے ساتھ ہو تو اس سے مراد یا تو صرف آنکھ ہوگی یا ’چشمِ دل‘۔ اہلِ منطق نے ’فکر‘ کو جنس اور ’نظر‘ کو اس کا فصل قرار دیا ہے، یہی اصول قلب ونظر پر بھی وارد ہوتا ہے۔ نظر کو قلب کی ایک استعداد سمجھنا چاہیے۔
۳:۲،  ’قلب ونظر شکار کر‘یعنی حبِ عشقی عطا فرما۔
ان تشریحات کی روشنی میں اب شعر کے مرکزی مضمون کو متعین کیا جا سکتا ہے۔ اے اﷲ مجھے حبِ عقلی عطافرما تاکہ تیری معرفت نصیب ہو جائے اور حبِ عشقی نصیب فرما تاکہ تیری محبت میسر آجائے۔ لیکن شعر کا بنیادی مضمون متعین کرنے کا چلن ابتدائی سطح پر ہی کارآمد ہے۔ شعر کو اس کی تمام تفصیلات میں دیکھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اور سب سے پہلے اس کے جمالیاتی مرکز تک پہنچنے کا سامان کرنا چاہیے، مثلاً تابدار ایک عام سا محدود المفاہیم لفظ ہے۔ اقبال نے اس لفظ کو محض مروّجہ مفاہیم میںرکھتے ہوئے ایک ایسی فضا بنا کر استعمال کیا ہے کہ اس میںتنوعِ معنی سمٹ آیاہے۔ ’گیسوئے تابدار‘ گھنگریالے بالوں کوکہتے ہیں جن میں ایک قدرتی چمک بھی ہو۔ ان کا حلقہ در حلقہ اور چمک دار ہونا اس دلالت تک لے جاتا ہے کہ ہر تجلیِ جمال اپنے ناظر کو بندگی کا ایک نیا طوق بھی پہنا  دیتی ہے، یعنی مشاہدۂ جمال بندگی میں تسلسل، تنوع اور ترقی کا موجب ہے۔

۱۴
عشق بھی ہو، حجاب بھی، حسن بھی ہو حجاب بھی
یاتو خود آشکار ہو، یامجھے آشکار کر
’’پہلا مصرع استعجابیہ ہے۔ یعنی یہ کیا بات ہوئی کہ عشق بھی پردے میں ہو اور حسن بھی چھپا ہوا ہو۔ اگر حسن اور عشق دونوںپردے میں ہوں گے تو عشق میں شدت کس طرح پیدا ہوگی؟ اگر زیادہ عرصے تک حسن وعشق ایک دوسرے سے مخفی رہیں گے تو عشق زوال پذیر ہو جائے گا۔ اس لیے اے محبوب! یا تو خود پردے سے باہر آکر اپنا جلوہ مجھے دکھا دے یا مجھے پردے سے باہر نکال اور میرے عشق میں شدت پیدا کردے، تاکہ میرا اور تیرا تعلق دائمی حیثیت اختیار کر لے۔ اس شعر میںاقبال نے اﷲ سے دائمی محبت رکھنے کی خواہش کی ہے۔ ‘‘ ص۔ ۱۱، ۱۲

تجزیہ:    نامکمل اور سطحی تفہیم، ناپختہ اسلوب
تبصرہ:    اس شعر کی کوئی تفہیم اس نکتے کو نظرانداز کرکے ممکن نہیں ہے کہ:
دونوں میں سے کوئی آشکار ہو جائے نتیجہ ایک ہی ہے۔ حسن ظاہر ہوگیا تو گویا عشق پردے سے نکل آیا اور عشق آشکار ہو گیا تو گویا حسن کا ظہور ہوگیا۔
مطالبہ یہ ہے کہ خدا یا! خود کو ظاہر کر دے تاکہ مجھے پورا اظہار مل جائے یا میری حقیقت کو آشکار کر دے تاکہ تو پوشیدہ نہ رہے۔
دوسرا لائقِ اعتبار مفہوم یہ ہے کہ بارِ الہٰ! یا تو خود کوظاہر کر دے اور مجھے چھپا رہنے دے یا مجھے ظاہر کر دے اور خود کو چھپا رہنے دے۔ ان دونوں میں سے کوئی ایک صورت ضرور ہونی چاہیے ورنہ کارخانۂ وجود بے معنی ہے اور بے اصل۔
اس شعر میں اقبال نے عشق کووحدت الوجود کی گرفت سے نکالا ہے اور بقا، امتیاز اور غیریت کی اساس بنایا ہے۔ ان میں سے کوئی ایک چیز بھی تو اس شرح میں نہیں۔ جو کچھ ہے بھی وہ بھی بے احتیاطی سے بیان ہوئی ہے۔

۱۵
تو ہے محیطِ بے کراں میںہوں ذرا سی آب جو
یا مجھے ہم کنار کر، یا مجھے بے کنار کر
’’اے خدا تیری ہستی ایک ایسے وسیع سمندر کی طرح ہے جس کا کنارہ نہ ہو، جب کہ میں تیرے سامنے ایک حقیر ندی کی طرح ہوں۔ وسیع سمندر کے سامنے چھوٹی سی ندی کی کیا حیثیت ہو سکتی ہے! اس لیے میں تجھ سے گزارش کرتا ہوں کہ یا تو مجھے اپنے ساتھ ملالے، ورنہ مجھے بے حد وسیع کردے تاکہ میں تجھ سے جاملوں۔ غرض دونوں صورتوں میںمقصد یہ ہے کہ میری ذات کی ندی خدا کی ذات کے محیطِ بے کراں میںمل جائے۔
ان اشعار میں اقبال ایک صوفی دکھائی دیتا ہے اور خدا کی ذات سے مل جانے کو اپنا مطمحِ نظرقراردے رہا ہے۔‘‘  ص۔ ۱۲

تجزیہ:    نامکمل تفہیم، تصوف کی علمیات سے بے توجہی
تبصرہ:    یہاں خواجہ صاحب نے ایک نکتہ نکالا ہے جس سے شعر میں معنویت کی ایک تازہ پرت کا انکشاف ہوتا ہے۔ لیکن مسئلہ وہی ہے کہ بڑی باتوں کو بہت گرا کربیان کرنا اور خود اپنی ہی کہی ہوئی بات کو درست نتیجے تک نہ پہنچنے دینا!
یہاں تک تو ٹھیک ہے کہ ہم کناری ہو یا بے کناری، ’’دونوں صورتوں میں مقصد یہ ہے کہ میری ذات کی ندی خدا کی ذات کے محیطِ بے کراں میں مل جائے‘‘ لیکن اس بات کو کہنے کا معیاری طریقہ یہ تھا کہ دو ذاتیں ایک دوسرے کے تقابل میںلامحدود نہیں ہو سکتیں۔ تقابل کیا ویسے ہی دو وجود لا محدود نہیں ہو سکتے۔ لامحدود ہمیشہ ایک ہوگا۔ اس شعر میں سے یہ قرینہ ضرور نکلتا ہے کہ لا محدودیت کی آرزو دراصل حقیقی لامحدود میں گم ہو جانے کی تمنا سے ظاہر ہے۔ محدود، لامحدودیت کے اقتضا کامتحمل نہیں ہو سکتا، اور وہ شعور جوان دونوں کے فرق کو جانتا ہے اس کے لیے یہ تقاضا اس لیے محال اور لایعنی ہے کہ اس اقتضا کی تکمیل ہستی کے کسی نظام میںممکن نہیں۔ محدود کبھی لامحدودیت کو نہیں پا سکتا۔ کیوں کہ یہ شعور انسان کا خاصہ ہے، لہٰذا اس شعر میں بے کناری کی طلب کو عمومی نہج سے الگ کرکے دیکھا جائے گا اور اس مطالبے سے نکلنے والے فوری مفہوم کو شعر کی مراد نہیں بنایا جائے گا۔ یوں بھی اس شعر میں جو ماحول بنا ہوا ہے اس میں معانی کی ساخت محض لفظی اور محض ذہنی نہیں رہتی بلکہ جمالیاتی ہو جاتی ہے۔ حقائق کی معنوی تشکیل کا یہی انداز ہے جس سے ورائے عقل امور میں ایک رنگِ حضور پیدا ہو جاتا ہے۔
ڈاکٹر صاحب کا یہ ارشاد ’’ان اشعار میں اقبال ایک صوفی دکھائی دیتا ہے اور خدا کی ذات سے مل جانے کو اپنا مطمعِ نظر قراردے رہاہے‘‘ اس لیے ناقابلِ قبول ہے کہ ہم کناری ہو یا بے کناری، دونوں حالتیں عام مفہوم میں خدا میں ضم ہو جانے کی ہیں۔ انسان خدا سے ہم کنار ہو جائے یا اس کی طرح بے کنار بن جائے، نتیجہ ایک ہی ہے۔ زیرِ نظر شعر میں ’یا‘ کے ذریعے سے دونوں میں مکمل امتیاز قائم کیا گیا ہے۔ اس کا کیا مطلب ہوا؟
اقبال کہ یہ رہے ہیں کہ اے اﷲ! یا تو مجھے اپنی ذات میں سمولے یا پھر مجھے بھی وہ وجود عطافرما جو غیر متناہی امکانات کا حامل ہو اور تیرے ہی وجود کی طرح حقیقی ہو۔ اس خواہش کا پہلا ٹکڑا دراصل خواہش میں شامل نہیں ہے۔ ’یا‘ کا حرف بیچ میں آکر انتہائی نامطلوب اور انتہائی مطلوب کو ایک فقرے میں جمع کر دیتا ہے۔ خدا سے ہم کنار ہونا ’نامطلوب‘ ہے او ربے کنار ہونا ’مطلوب‘۔
یہاں یہ اشکال پید اہوسکتا ہے کہ ’بے کناری‘ کی آرزو اگر خدا میں مدغم ہو جانے پر دلالت نہیں کرتی تو پھر اس کا مطلب یہ ہوگا کہ دوسرا خدا بننے کی تمنا کی جا رہی ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ہر شے کی تعریف اس کے ثابت شدہ وجود کے مرتبے کی رعایت سے کی جاتی ہے۔ خدا کی واقعی ’بے کرانی‘ کا مفہوم وہ نہیں ہو سکتا جو انسان کی متصورہ ’بے کناری‘ میں پایا جاتا ہے۔ انسان میں ’بے کناری‘ کی خواہش کا مطلب اس سے زیادہ نہیں کہ میں اپنے موجودہ حدودِ ہستی کو توڑنا چاہتا ہوں اور اپنے تمام امکاناتِ وجود کو عمل میں لانے کا طالب ہوں۔
اقبال ان شاعروں میں سے نہیں ہیں جوبات سوجھنے کے منتظر رہتے ہیں۔ وہ ایک باقاعدہ فکر کے حامل ہیں اور ان کے شعر میںبھی مضمون ان کے شعور اور ذہن کی چھلنی سے گزر کر سامنے آتا ہے۔ وہ بھلا ’خدا کی ذات سے مل جانے‘ کو اپنا مطمحِ نظر بنا سکتے ہیں؟
امید ہے اب یہ بات واضح ہو گئی ہوگی کہ اِس شعر کے بارے میں یوں کہنا چاہیے کہ:
اس شعر میں اقبال نے وجودِ انسانی کی غیرمحدود توسیع اور اس کی actualisation کا تصور پیش کیا ہے، یعنی انسان موجود کی حیثیت سے حقیقی ہے نہ کہ ’اعتباری‘، اور استعدادِ وجود کی جہت سے غیر محدود ہے نہ کہ محدود۔

۱۶
میں ہوں صدف تو تیرے ہاتھ میرے گہر کی آبرو
میں ہوں خذف تو، تو مجھے گوہرِ شاہوار کر
’’اے خدا میں ایک سیپی کی طرح ہوں اور اس سیپی کے موتی کی حفاظت اور پرورش کا تو ہی ذمہ دار ہے اور تو ہی اسے لٹنے سے بچا سکتا ہے ورنہ کوئی بھی اس موتی کو لوٹ کر صدف کو بے آبرو کرسکتاہے۔ لیکن اگر میں کم قیمت مٹی کا ٹھیکرا ہوں تو بھی تو اسے ایسے قیمتی موتی میں تبدیل کر سکتا ہے جو بادشاہوں کی خدمت میں پیش کرنے کے قابل ہو۔
دوسرے لفظوں میں اگر میری کوئی قیمت ہے تو یہ تیری مہربانی سے ہے اور اگر میری کوئی حیثیت نہیںہے تو میں تیری ہی توجہ سے صاحبِ حیثیت بن سکتاہوں۔‘‘ ص۔ ۱۲

تجزیہ:     سطحی تشریح، غیر موزوں اسلوب
تبصرہ:     کیوں کہ اس شعر کی تفہیم میں غلطی کا سرے سے امکان ہی نہیں تھا، لہٰذا شرح میں غلطی تو نہیں ہے مگر اس کی زبان عجیب سی ہے جس سے وہ نقائص پیداہوگئے ہیں جن سے بچنا صحتِ فہم کے حصول سے زیادہ ضروری ہے۔
۱۔  ’’سیپی کے موتی کی حفاظت اور پرورش کا تو ہی ذمہ دار ہے۔‘‘ خیال رہے کہ یہ اﷲ تبارک وتعالیٰ سے کہا جارہا ہے۔
۲۔  ’’توہی اسے لٹنے سے بچا سکتا ہے ورنہ کوئی بھی اس موتی کو لوٹ کر صدف کو بے آبرو کرسکتا ہے۔‘‘ اپنے گہر کی آبرو کے سلسلے میں اقبال کی فکر مندی اگر اس سطح تک گرسکتی تو وہ اقبال ہرگز نہ ہوتے۔ ’بے آبرو‘ کا لفظ بتا رہا ہے کہ محترم شارح کے ذہن میں ’آبرو‘ کا کیاتصور ہے!

۱۷
نغمۂ نوبہار اگر میرے نصیب میں نہ ہو
اِس دمِ نیم سوز کو طائرکِ بہار کر
’’اس شعر میں نوبہار سے مراد اسلام کی نشاۃ الثانیہ یا عروجِ نوہے۔
مجھے یقین ہے کہ اسلام دنیا میں پھر زندہ ہوگا اور اس کے اُجڑے ہوئے باغ میں دوبارہ بہار آئے گی لیکن مجھے اس کا یقین نہیں ہے کہ میں اس بہارکو دیکھنے اور اس کے نغمے سننے تک زندہ رہوں گا۔ اگرچہ میں آدھی زندگی گزار چکا ہوں لیکن خدا سے التجا کرتاہوں کہ میرے کلام کو اتنا اثر عطا ہو کہ یہ اسلام کی نشاۃ الثانیہ کا ذریعہ بن جائے۔ اگر میری شاعری سے مسلمانوں کو اسلام کے باغ میں آنے والی نوبہار کا پیغام ہی مل جائے تو میں سمجھوں گا کہ میری زندگی کا مقصد پورا ہوگیا۔‘‘ ص۔ ۱۳

تجزیہ:    سطحی تشریح، سطحی اسلوب
تبصرہ:    یہاں بھی مضمون واحد ہے، بات کو نیچے لانے کا عمل اسی طرح جاری ہے۔ شعر صاف اور سیدھا ہے لیکن پھربھی ایک بڑے شاعر کا کہا ہوا ہے، اس کا لحاظ رکھنا چاہیے تھا۔ ’نغمۂ نوبہار، دمِ نیم سوز‘ اور ’طائرکِ بہار‘ میں ایک واضح معنی کو تہ دار اور خوب صورت بنانے کی جو قوت پوشیدہ ہے اس کی طرف اشارہ کرنا ضروری تھا جو حسبِ معمول نہیں کیاگیا۔

۱۸
باغِ بہشت سے مجھے حکمِ سفر دیا تھا کیوں
کارِ جہاں دراز ہے اب مرا انتظارکر
’’یہ شعر غزل کے مزاج سے ہٹا ہوا ہے۔ بہرحال یہ غزل کا عیب نہیں ہے کیوں کہ ابتدا ہی سے صنفِغزل میں ریزہ خیالی عام ہے۔
اس شعر میں اقبال خدا سے گلہ گزار ہیں کہ خدا نے انسان کو بہشت کے باغ سے نکال کر دنیامیں پھینک دیا۔ دنیا میں بے شمار مسائل ہیں جن کی وجہ سے لوگ لاتعداد الجھنوں میں مبتلا ہیں۔ کوئی انسان ایسا نہیں جس کی مصروفیات اسے دنیا کے کاموں سے اتنی فرصت دیں کہ وہ خدا کی طرف متوجہ ہو سکے۔ دراصل انسان مرکر ہی دنیا کے دھندوں سے فارغ ہوتا ہے اس لیے اب خدا کو اس بات کا طویل انتظار کرنا پڑے گا کہ کب انسان فارغ ہو اور کب اس کی طرف رجوع کرے۔
شعر میں اشارہ یہ ہے کہ یہ انتظار ہر انسان کی موت تک رہے گا۔‘‘ ص۔۱۳

تجزیہ:    تفہیم نامکمل اور غلط
تبصرہ:    ۱۔  یہ شعر غزل کے مزاج سے ہٹا ہوا نہیں ہے۔ اﷲ کے سامنے انسان اپنی حقیقت، تقدیر، غایت اور وجود پر کلام کر رہاہے۔ دنیا کا مذکور ہونا ضروری تھا ورنہ یہ دائرہ، یعنی انسان کی مجموعیت کا دائرہ مکمل نہ ہوتا۔
۲۔  اس غزل میں کوئی ریزہ خیالی نہیں ہے۔ایک theme مسلسل اور مربوط طریقے سے تکمیل دیا گیاہے۔
۳۔  ’کارِ جہاں کی درازی‘ کا وہ مطلب ہرگز نہیں ہے جو چاند رات کو خیاطوں کے ذہن پر چھایاہوتا ہے۔ ’کارِ جہاں‘ سے مراد ’دنیاکے دھندے‘ نہیں ہیں بلکہ کائنات کی تسخیر، تعمیر، تدبیر وغیرہ جو انسان کے ذمے ہے۔
۴۔  ’’خدا کو طویل انتظار کرنا پڑے گا۔‘‘ شعر میں خدا کو اتنے ان گھڑ طریقے سے انتظار میںنہیں ڈالا گیا۔ تفہیم میں یا تو خدا کو انتظار کروانے کی تعلّی پر ڈھنگ سے گرفت کی جانی چاہیے تھی یا اس کی کوئی ایسی تاویل ہونی چاہیے تھی کہ پڑھنے والا گستاخی کے تاثر سے نکل آتا، اس تشریح نے تو اس تاثر کو اور ہوا دے دی۔
۵۔  ’’یہ انتظار ہر انسا ن کی موت تک رہے گا‘‘گویا معاذ اﷲ موت خدا کے اختیار سے باہر ہے!

۱۹
روزِ حساب جب مرا پیش ہو دفترِ عمل
آپ بھی شرمسار ہو مجھ کو بھی شرمسار کر
’’شعر کامطلب یہ ہے کہ اکثر انسانوں کا اعمال نامہ اتناسیاہ ہوگا کہ وہ اسے دیکھ کر خودہی شرم سے پانی پانی ہو جائیں گے۔
اب سوال یہ ہے کہ خدا کیوں شرمندہ ہوگا؟ اس کی ایک وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ خدا اپنی تخلیق یعنی حضرتِ انسان کے سیاہ کارناموں پر ندامت محسوس کرے گا… دراصل اس شعر کے اندازِ بیاں سے غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے۔ مطلب فقط یہ بتانا ہے کہ عموماً انسان بہت گناہ گار ہوتے ہیں لیکن اپنے گناہوں کا احساس قیامت کے دن اعمال نامہ دیکھ کر ہی ہوگا۔‘‘ ص۔ ۱۴

تجزیہ:    نامکمل اور عامیانہ تفہیم، نامناسب اسلوب
تبصرہ:     تفہیمِ بالِ جبریل میں شرح کا معیار اتنی مستقل مزاجی اور استقامت سے برقرار رکھا گیاہے کہ تنقید اور اعتراض کی یکسانی سے بچنا ممکن نہیں ہے۔ ایک ہی طرح کی غلطیوں پر تنقید کرنے والا ایک پھول کے مضمون کو سو رنگ سے باندھنے کی مشکل میںپھنس جاتاہے۔ بہرحال اس شعر کی شرح کا نقص بھی وہی ہے جو ساری کتاب میںکارفرما ہے۔ شعر کو بری نثر میں ترجمہ کر دینا اور اس کے الفاظ کو سب سے نچلی سطح کے مفہوم میں صرف کردکھانا!
۱۔  ’’(مرے اعمال نامے میں) اتنے گناہ درج ہوں گے…‘‘ یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ اعمال نامہ بالکل کورا ہو۔
۲۔ ’’شاعری میں عموماً ’میں‘ اور ’میرا‘ سے مراد کسی ایک شخص کی ذات نہیں ہوتی بلکہ بحیثیتِ مجموعی انسان مرادہوتے ہیں‘‘۔ اس انتہائی اہم نکتے کی بار بار نشاندہی کا شکریہ! پوری شرح میں زیادہ سے زیادہ ایسے ہی دقائق کھولے گئے ہیں۔
۳۔ ’’اب سوال یہ ہے کہ خدا کیوں شرمندہ ہوگا؟ اس کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ خدا اپنی تخلیق حضرتِ انسان کے سیاہ کارناموں پر ندامت محسوس کرے گا‘‘۔ اﷲ کا ندامت محسوس کرنا اﷲ کو نہ ماننے والے کے دماغ میں بھی نہیں آسکتا۔ اس انتہائی فضول غلطی میںکچھ دخل اس شعر کا بھی ہے لیکن باقی کارنامہ شارح کا ہے۔ شرمساری، خصوصاً خدا کے حوالے سے، ندامت محسوس کرنا ہرگز نہیں ہے۔ اس کا مطلب ہے کسی کی غلطی پر اسے ذلیل کرنے کے بجائے اسے دیکھنے سے بھی اس لیے گریز کرنا کہ وہ شرمندہ نہ ہو۔
خدا کا شرمسار ہونا اس کی شفقت ورحمت کامظہر ہے جیسا کہ خود خواجہ صاحب نے سعدی کے شعر سے اخذ کیا ہے:
کرم بین و لطف خداوند گار
گناہ بندہ کردہ است و او شرمسار
۴۔  دفترِ عمل پر شرمساری کو محض کثرتِ گناہ سے مشروط کر دینا ٹھیک نہیں ہے۔ زیادہ قوی قرینہ یہ ہے کہ بے عملی موجبِ شرمندگی بنے گی۔

فرہنگ کی سطح بھی یہی ہے۔ لفظ کو اس کے معمولی ترین مفہوم تک محدود کر دینے کا عمل وہاں بھی جاری ہے۔ تمام اندراجات کا تو جائزہ نہیں لیا جا سکتا۔ سرِدست چند ایک پر ہی گفتگو کیے لیتے ہیں۔
نوائے شوق
’’وہ آرزو جو جذبۂ عشق کی وجہ سے بلند کی جائے۔‘‘ ص۔ ۵
اقبال کے ہاں بالخصوص، اور عرفانی روایت میں بالعموم، عشق انسانی جذبات میں سے کوئی خاص جذبہ نہیں ہے، بلکہ یہ انسان کی اصل ہے جس سے انسانیت کے تمام حقائق متعین ہوکر علم اور عمل میں آتے ہیں۔ ’نوائے شوق‘ اس کا اظہار ہے۔ باقی تفصیل اوپرآچکی ہے۔
حریمِ ذات
’’خدا کے رہنے کی جگہ، عرش‘‘ ص۔ ۵
اس کی تصحیح بھی اوپر ہو گزری ہے۔ ’خدا کے رہنے کی جگہ‘ سخت قابلِ اعتراض فقرہ ہے۔ روز مرہ کلام کی سطح پر تو شاید اس طرح کی باتیں چل جائیں لیکن ایک اصطلاح کی تفہیم میں ایسے کلمات گمراہ کن ہیں۔ ’لامکاں‘ تو ظاہر میں بھی ’جگہ‘ کاضد ہے، کم از کم اتنا ہی دیکھ لیاجاتا، اس طرح ’عرش‘ بھی لامکاں نہیں ہے بلکہ مقامِ استوا ہے اور اس کی نسبت صفات کے ساتھ ہے نہ کہ ذات کے ساتھ۔
بت کدۂ صفات
’’چونکہ خداکسی بھی چیزسے مشابہت نہیں رکھتا، اس لیے ہم اسے مادی آنکھوں سے نہیںدیکھ سکتے۔ فقط صفاتی ناموں مثلاً رحیم،کریم، ستّار، غفّار کی مدد سے اس کا تصور قائم کر لیتے ہیں۔ اقبال کے نزدیک یہ تصورات ہمارے ذہن میں بتوں کی شکل اختیار کرلیتے ہیں اور خدا کی حقیقی پہچان میں رکاوٹ بن جاتے ہیں۔‘‘ ص۔ ۵
سراسر غلط ہے۔ اس اصطلاح کی درست شرح تبصرے میں بیان ہوچکی ہے، وہیں دیکھ لی جائے۔ ذات وصفات کی عینیت اور غیریت کا مبحث مشہورہے۔ خواجہ صاحب نے اُس طرف توجہ ہی نہیں کی۔
(دیر وحرم کی) نقش بند
’’خالق، بنانے والا، صانع، یہاں مراد ہے کعبہ وسومنات کے ماننے والے یعنی عبادت گاہوں کے متولّی۔‘‘ ص۔۶
گویا میری جستجو دیر وحرم کی متولّی ہے! اس بات کی غلطی اتنی ظاہر ہے کہ تفصیل میں جانے کی ضرورت ہی محسوس نہیںہوتی۔ بہرحال ’نقش بند‘ خیال کو مجسم کرنے والے کے معنی میں آیا ہے۔
دلِ وجود
’’کائنات کا باطن، مراد ہے کائنات کے چھپے ہوئے اسرار۔‘‘ ص۔۷
یہ مطلب بالکل غلط تو نہیں ہے لیکن ناقص ہے۔ شبہ ہے کہ ’کائنات‘ سے محض فزکس کی کائنات مرادلی گئی ہے۔لہٰذا یہ تصریح ضروری ہے کہ ’دلِ وجود‘ حقیقتِ ہستی تک رسائی کے آخری نقطے کو کہا گیا ہے جس میں اسرارِ کائنات وغیرہ خود بخود شامل ہیں۔
ہنگامہ ہائے شوق
’’وہ ہنگامے ہیں جو عشاق عشق کے ہاتھوں مجبور ہو کر برپا کرتے ہیں۔‘‘ ص۔ ۸
یہاں ’ہنگامہ ہائے شوق‘ سے مراد ہے عشق اوراس کا سلسلۂ اظہار۔ لامکاں چونکہ ظہور اور دوئی سے ماورا ہے اس لیے وہاں عشق کا وجود محال ہے۔ یہاں تک تو بات ٹھیک ہے، باقی شعر جس مضمون پرمبنی ہے، وہ نرا شاعرانہ ہے اور عرفانی روایت سے باہر کی چیز ہے۔
لذتِ ایجاد
’’کسی نئی چیزکی دریافت یا ساخت کا لطف، یہاں مطلب یہ ہے کہ انسان جب کوئی نئی چیز بناتا یا دریافت کرتا ہے تو اس سے بہت لطف اندوز ہوتا ہے، یعنی ایجاد باعثِ لذت ہوتی ہے۔‘‘ ص۔ ۱۵
اس طرح کی غلطیاں صاحبانِ علم سے سرزد ہونے لگیں تو آدمی علم وادب کے مستقبل ہی نہیں بلکہ حال سے بھی مایوس ہو جاتاہے۔بہرحال ’لذتِ ایجاد‘ کا مطلب ہے اﷲ کا ذوقِ تخلیق۔ خدا جانے خواجہ صاحب نے اس عجیب وغریب غلط فہمی تک پہنچنے کا راستہ کیسے ایجاد کیا!
مقامِ شوق
’’وہ مقام جو بڑی لگن سے حاصل کیا جائے۔‘‘ ص۔ ۱۷
خواجہ صاحب کی لذتِ ایجاد، یہاں بھی اسی زور شور سے جاری ہے۔ ’مقامِ شوق‘ یعنی مرتبۂ عشق کا یہ مطلب زبان کے کسی معلوم قاعدے سے تو نکالا نہیں جاسکتا، ہاں اپنی طرف سے کوئی طریقہ گھڑ لیاجائے تو الگ بات ہے۔
خود نگہداری
’’مراد ہے ذاتی مفادات کی حفاظت۔‘‘ ص۔ ۲۰
صحیح مطلب: اپنے آپ میں مگن رہنا۔ خود میں مبتلاہو جانا، خود کو عشق میںلازماً آنے والی آزمائشوں سے محفوظ رکھنا، خودی کی نچلی سطح تک محدود ہو جانا، خودی کی حقیقت یعنی خدا سے غافل اور لاتعلق رہنا، انفرادی خودی کواجتماعی خودی میںضم نہ ہونے دینا۔
صوفی وملاّ
’’تاریخِ اسلام میں صوفیہ ظاہری عبادات کے مخالف اور روحانی واردات کے علم بردار تھے، جب کہ ملاّ روحانی واردات سے دامن کش اورظاہری عبادات پرزور دیتے رہے۔ دونوں گروہوں کے پیروکار اپنے بزرگوں کے راستوں سے سرِمو تجاوز نہیں کرتے اور تقلیدی ذہنیت کی وجہ سے اپنے اپنے مسلک پرآنکھیں بند کرکے چلتے رہتے ہیں۔‘‘ ص۔ ۲۶
اگر ’تحقیقی ذہنیت‘ کے ساتھ آنکھیںکھول کر چلنے کا یہ نتیجہ ہے تو تقلیدی ذہنیت ہی بھلی۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ صوفی وملاّ کب پائے جاتے تھے، کہاں پائے جاتے تھے!
(تیغِ) جگردار
’’جگررکھنے والی، مضبوط۔‘‘ ص۔ ۲۶
’جگر رکھنے والی تلوار‘ ایک مہمل بیان ہے، درست مطلب: تیزاور چمکتی تلوار جس کی کاٹ کبھی کم نہ ہو۔
ماہِ تمام
’’مراد روحانی روشنی ۔‘‘ ص۔ ۲۷
صحیح مراد: اصلِ جمال، منبعِ کمالات، ہدایت ورحمت
عالمِ من وتو
’’زندگی کی عام کیفیت جس میں انسان اپنی ذات اور دوسروں کی ذات کو الگ الگ تصور کرتاہے۔‘‘ ص۔ ۲۸
اس سطحِ فہم تک اُتر آنے کی وجہ سے شعر کی تشریح میں ڈاکٹر صاحب کو بے معنی بات لکھنی پڑی کہ: ’’اﷲ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے مجھے اپنی تجلیات اس طرح دکھائیں کہ میری اور اس کی ذات ایک ہوگئی‘‘ ص۔ ۲۸
استغفر اﷲ، دینی نقصان تو جو ہواسو ہوا، شعر غارت ہو کر رہ گیا۔ بہرکیف صحیح اورنسبتاً مکمل مطالب درجِ ذیل ہیں:
۱۔ ’میں‘ اور ’تو‘ کی دنیا
۲۔ کثرت اور امتیاز کا عالم، ماسویٰ اﷲ کا جہان
۳۔ عقل کی دنیا جہاں چیزیں انفرادی تعین اور تشخص میں محصور ہیں اور اس ہمہ گیر وحدت سے محروم ہیں جوشرطِ وجود ہے، بلکہ خود وجود۔
۴۔ عالمِ فراق
۵۔ خیال، اعتبار اور وہم کا ایجادکردہ عالم
۶۔ ذہنی اور علمی تعینات اور تحدیدات
کرشمہ سازی
’’حیرت کامقام، معجزاتی کیفیت۔‘‘ ص۔ ۳۹
حیرت ہے کہ فعل کو مقام اور کیفیت کے مفہوم میں لیا گیا ہے۔ کرشمہ سازی یہاں طلسم بندی کے معنی میںہے، یعنی ظاہر بہت کچھ ہے مگر حقیقت کچھ نہیں۔ اس کے علاوہ ظہورِ جمال کا مطلب بھی نکلتا ہے جومحبوب کی طرف اشارہ تو کرتا ہے لیکن اُس تک پہنچنے نہیں دیتا، یعنی ایسا اظہار جو اخفا کو برقرار رکھے۔
علم
’’مراد حواس کا علم جو دیکھنے، سننے، چکھنے، سونگھنے اور چھونے سے حاصل ہوتا ہے۔ اسے عقلی علم کہا جاتاہے۔‘‘ ص۔ ۵۷
حواس کاعلم، عقلی علم ہے؟ یعنی محسوسات اور تصوراتِ محض ایک ہیں! نہایت حیرت انگیز۔ یہاں علم سے مراد ہے علمِ شریعت یاعلمِ ظاہر۔
استغنا
’’لفظی مطلب: فارغ ہونا۔ مراد کم از کم ضروریات رکھنا، قناعت ۔‘‘ ص۔ ۵۸
استغنا کا مطلب ہے، دنیا ومافیہا یعنی ماسویٰ اﷲ سے بے نیازی، فقر۔
جذب ومستی
’’جذبۂ عشق جوانسان کا جوہر ہے اور جس سے جبریل (اور فرشتے) محروم ہیں۔‘‘ ص۔ ۵۸
سخت عامیانہ مفہوم ہے۔ جذب، عشق کی وہ حالت ہے جو مقصود کو پانے کی لگن سے پیدا ہوتی ہے، اور مستی وہ کیفیت ہے جو مقصود کو پاکر حاصل ہوتی ہے۔ حصول کا دائرہ خواہ کتنا ہی وسیع ہو جائے مقصود اس سے ماورا رہتا ہے۔ اس لیے جذب بھی مستقل ہے اور مستی بھی۔
طواف
’’اس (خدا) کے اردگرد پھرنا۔‘‘ ص۔ ۵۸
اﷲ کی ذات کوئی وجودِ محدود نہیں ہے۔ اس لیے اس کے اردگرد کا تصور خطرناک غلطی ہے۔ یہاں مراد ہے عرش کا طواف۔
قیصر
’’سیزر کی بگڑی ہوئی شکل۔‘‘ ص۔ ۵۹
سیزر کا معرب نہ کہ بگڑی ہوئی شکل۔
گوہرِ فردا
’’وہ موتی جو مستقبل میں بیش قیمت ثابت ہوگا۔‘‘ ص۔۶۳
صحیح مطلب: مستقبل کا موتی یعنی گوہرِ مراد۔
خس وخاشاک
’’تنکے۔‘‘ ص۔ ۶۴
صحیح مطلب : ۱۔ کوڑا کرکٹ،۲۔ بے حقیقت لوگ جو دنیاکے گھورے پر پلتے ہیں، گرے پڑے بے وقعت دشمن، ۳۔ پست فطرتی کے مظاہر
سنائی کے ادب
’’ادب کے یہاں دو مفہوم ہو سکتے ہیں۔ ۱۔ سنائی کاکلام اور  ۲۔سنائی کا احترام، چنانچہ اس سے شعر میں بھی دو مفہوم پیدا ہوگئے ہیں۔‘‘ ص۔ ۶۷
جہاں واقعی دو مفہوم ہوتے ہیں وہاں تو خواجہ صاحب ایک بلکہ آدھے پر اکتفا کر لیتے ہیں اور جہاں کسی دوسرے مفہوم کا شائبہ تک نہیں ہوتا وہاں دومفہوم برآمد کر لیتے ہیں۔ ’سنائی کاکلام‘ ایک زبردستی کا مطلب ہے۔ اس شعر میں اس کا کوئی قرینہ موجودنہیں۔
حرفِ راز
’’راز کی باتیں، حیات وکائنات کے راز۔‘‘ ص۔ ۷۰
حرفِ راز، خدائی راز ہے، یہ فقط حیات وکائنات کے راز نہیں ہے بلکہ اس میں الوہیت کے اسرار بھی داخل ہیں۔نفسِ جبریل کی آرزو اسی لیے کی گئی ہے۔
نفسِ جبریل
’’جبریل جتنی طویل زندگی۔‘‘ ص۔ ۷۰
فقرہ بھی غلط اور مطلب بھی نادرست۔ صحیح مفہوم ہے جبریل کی قوتِ اظہار۔ یہاں ان کا روحِ الامین یعنی امینِ حقائق ہونا محذوف ہے۔ نفس سے زندگی مراد لے کر ایسی ہی تعبیر تک پہنچا جا سکتا ہے کہ:
’’اس شعر میں اقبال بتا رہے ہیں کہ ملت سے عشق کی وجہ سے انھوں نے حیات وکائنات کے لیے ایسے بے شمار اسرار سیکھ لیے ہیں جنھیں مختصر عمر میں بتانا ممکن نہیں۔‘‘ ص۔ ۷۰
سرِعیاں
’’وہ راز جو چھپایا گیا ہو مگر اسے ظاہر کرنا مقصود ہو۔‘‘ ص۔ ۷۴
صحیح مطلب: کھلا ہوا بھید، وہ شے جس کی صور ت معلوم ہو اور حقیقت نامعلوم، وہ حقیقت جس کا مخفی ہونا ظاہر ہو۔
بے نیشی
’’یہاں مراد ہے تیزی وتندی سے محرومی۔‘‘ ص۔ ۷۹
صحیح مطلب: کھٹک/ تڑپ / بے قراری کا نہ ہونا۔
نیش
’’زہر۔‘‘ ص۔ ۷۹
صحیح مطلب:  چبھن۔
جذب وشوق
’’عشق اور اس میں جذب ہو جانے والی کیفیت۔ ‘‘ ص۔ ۸۲
صحیح مطلب:  ۱۔ کشش اور لگن،  ۲۔ جذب، یعنی کششِ محبوب کا فعل ہے اور شوق اس کے نتیجے میں عاشق کے اندر پیدا ہونے والا حال۔
لطیفۂ ازلی
’’نفیس اشیا جو ہمیشہ سے ہیں۔ ‘‘ ص۔ ۹۷
خدا جانے یہ مطلب کیسے نکالا گیا ہے۔ بہرکیف لطیفۂ ازلی سے مراد ہے عشق کا ملکۂ اظہار جو ازلی ہے۔
نیاز
’’انکسار۔‘‘  ص۔ ۱۰۱
صحیح مطلب:  بندگی / محتاجی
جذبِ مسلمانی
’’اسلام سے والہانہ لگائو۔‘‘  ص۔ ۱۱۰
صحیح مطلب: ۱۔ حقیقتِ اسلام اور اس کی کشش جو بندے کی عقل، ارادے اور طبیعت کو اﷲ کی طرف کھینچ لے جاتی ہے،  ۲۔  اسلام کا مستقل حال بن جانا۔  ۳۔ حق الیقین
رہروِ فرزانہ
’’دنیا کی زندگی گزارنے والا دانا شخص۔‘‘  ص۔ ۱۱۰
صحیح مطلب: ۱۔ عقل مند اور ہوشیار مسافر،  ۲۔ حقیقت تک پہنچنے کے لیے عقل پر انحصار کرنے والا۔
آستاں
’’عرشِ خداوندی میں داخلے کا مقام۔‘‘  ص۔ ۱۱۵
یہ مطلب کس طرح اخذ کیا گیا، کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
نوائے پریشاں
’’منتشر خیالات، رنجیدہ جذبات ۔‘‘  ص۔ ۱۳۹
صحیح مطلب:  بے ربط کلام، نامربوط گفتگو جو نشے میں سرزد ہوتی ہے۔
فریب خوردۂ منزل
’’یہ غلط فہمی کہ منزل آگئی ہے۔‘‘  ص۔ ۱۷۲
صحیح مطلب:  منزل کے فریب میں مبتلا،منزل کے تصور پر فریفتہ۔
موجود
’’جو کچھ حاضر ہے۔ وجود میں آئی ہوئی اشیا، کائنات۔‘‘  ص۔۲۰۶
سب غلط، صحیح مطلب: وجودِ حقیقی، اصل وجود، موجودِ مطلق
شعور وہوش وخرد
’’تینوں الفاظ یہاں تقریباً مترادفات کے طور پر استعمال ہوئے ہیں۔‘‘ ص۔ ۲۱۰
صحیح صورتِ حال یہ ہے کہ یہ تینوں ’انا‘ کی تعمیر اور حفاظت کرتے ہیں۔ شعور ’میں‘ کو ’وہ‘ پر غالب رکھتا ہے۔ ’ہوش‘ اس کو اپنے مقصود پر نثار نہیں ہونے دیتا اور ’خرد‘ اسے ایسے امتحان میں پڑنے سے روکتی ہے جس میں اس کے تصور کردہ نقصان کا اندیشہ ہو۔
دمِ عارف
’’عارف کی زندگی۔‘‘  ص۔ ۲۳۷
صحیح مطلب:  عارف کا کلام / تصرف
نور وحضور وسرور
’’اﷲ تعالیٰ کا قرب اور اس قرب سے حاصل ہونے والا دل کا نور اور لطف۔‘‘  ص۔ ۲۴۵
صحیح مطالب: ۱۔ عشق کے تین مرحلے۔ دل کی روشنی، محبوب کا سامنا، عشق کا نقطۂ کمال اور اس کاحال
۲۔ معرفت کے تین مرحلے: حق کی نشانیوں کا مشاہدہ، حسن کا مشاہدہ، تکمیلِ معرفت اور اس سے پیدا ہونے والا اطمینان۔
۳۔ قلب کے تین مرحلے: ہدایت، معرفت، عشق۔
۴۔ خیر، حق، اور جمال کی نسبت کاظہور
۵۔ ’نور‘ = نفس کے تزکیے کا پھل + ’حضور‘ = قلب کی صفائی کا نتیجہ+ ’سرور‘ = نفس کی نورانیت اور دل کی حضوری سے پیدا ہونے والا حال۔
سرخوش
’’بے انتہا خوش۔‘‘  ص۔ ۲۴۵
پوری ترکیب درج کرنی چاہیے تھی۔ سرخوش وپرسوز۔ اس کا مطلب ہوگا:  ۱۔ عشق کی مستی اور حرارت سے معمور۔  ۲۔ عاشقِ کامل، جس کی خوشی بھی عشق کی دین ہے اور دردبھی۔ جسے عشق ہی سیراب کرتا ہے اور عشق ہی پیاسا رکھتا ہے۔
سوز وتب
’’جلن اور تپش۔ ‘‘ ص۔ ۲۴۵
یہاں بھی پوری ترکیب کو کھولنا چاہیے تھا۔سوز وتب ودرد وداغ۔
’سوز‘ = آرزو + ’تب‘ = جستجو + ’درد‘ = آرزو کا منتہیٰ + ’داغ‘   = جستجو کا منتہا۔ یعنی شدید آرزو اور اس کے ساتھ یہ یقین بھی کہ اس آرزو کا پورا ہونا محال ہے، اور سخت جستجو اور اس کے ساتھ یہ یقین بھی کہ اس جستجو کا بارور ہونا ممکن نہیں۔
ممکنات
’’انسانی صلاحیتوں کے امکانات۔‘‘  ص۔ ۲۵۲
مفہوم اتنا غلط ہے کہ جس فقرے میں بیان ہواہے وہ فقرہ بے معنی ہو کررہ گیا ہے۔ انسانی صلاحیتوں کے امکانات! یعنی چہ! صحیح مطلب: مخلوقات، موجودات جن کا ہونا بھی ضروری نہیں ہے اور نہ ہونا بھی۔ اقبال کے ہاں عام طور سے ممکنات سے وہ موجودات مراد ہوتے ہیں جن کا وجود بھی حقیقی ہے اور عدم بھی۔
دمِ جبریل
’’جبریل کی زندگی۔‘‘   ص۔ ۲۵۵
صحیح مطلب:  ۱۔ خدائی فیضان (Divine Effusion)  ۲۔ عشق کا مبدا
دلِ مصطفی (صلی اﷲ علیہ وسلم)
’’آنحضور صلی اﷲ علیہ وسلم کا جذبہ۔‘‘  ص۔ ۲۵۵
صحیح مطلب:  ۱۔ خدائی فیضان کی قبولیت کا کامل ملکہ   ۲۔ عشق کامنتہا
نقطۂ پرکارِ حق
’’سچائی کا مرکز جس کے اردگرد پرکار گھومتی ہے۔‘‘   ص۔ ۲۶۴
عجیب وغریب فقرہ ہے۔ سیدھا سا مطلب تھا، حق کے دائرے کا مرکز!
وہم وطلسم ومجاز
’’حقیقت سے دور، خیالی اور توہماتی۔‘‘  ص۔ ۲۶۴
دیکھے ایک اہل شارح ان اصطلاحات کو کس طرح کھولتا ہے:
’’وہم سے یہاں وہ شے مراد ہے جس کی کوئی اصلیت (قیمت) نہ ہو۔ طلسم سے وہ شے مراد ہے جس کاظاہر کچھ ہو باطن کچھ ہو، یعنی دھوکا۔ مجاز سے وہ شے مراد ہے جس کی کوئی حقیقت (بنیاد) نہ ہو۔ وہم یقین کی ضد ہے۔ طلسم، صداقت کی ضد ہے اور مجاز، حقیقت کی ضد ہے۔‘‘ (شرحِ بالِ جبریل، یوسف سلیم چشتی، ص ۵۰۳، ۵۰۴)
بات یہ ہے کہ کسی چیز کے غیر حقیقی ہونے کے بھی کچھ درجات ہوتے ہیں، یہ الفاظ ان درجات کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
۱۔  ’وہم‘ یعنی موہوم وہ شے ہے جو صورت کے اعتبار سے غیر حقیقی ہے۔
۲۔  ’طلسم‘ وہ شے ہے جو صورت کے اعتبار سے بھی غیر حقیقی ہے اور معنی کے اعتبار سے بھی۔
۳۔  ’مجاز‘ وہ شے ہے جو معنی کے اعتبار سے غیر حقیقی ہے۔
تب وتاب
’’چمک دمک، اضطراب ۔ ‘‘ ص۔ ۲۷۸
صحیح مطلب:  حرارت اور روشنی، گرمی اور طاقت
انفس
’’نفس کی جمع، سانسیں، مراد زندگی۔ ‘‘ ص۔ ۲۸۴
یہ ایسی غلطی ہے جو بھولے سے سرزد ہو جائے تو بھی آدمی کو بے اعتبار بنا سکتی ہے۔ ابھی تک یقین نہیں آرہا کہ کوئی صاحب ایسے بھی ہوسکتے ہیں جو ’انفس‘ کا مطلب ’سانسیں‘ اور ’زندگی‘ سمجھتے ہیں!!
فتوحات
’’مراد کامیابیاں (طنزیہ استعمال کیاگیا ہے)۔‘‘  ص۔ ۲۸۸
صحیح مطلب:  ۱۔ نتائج، حاصلات،  ۲۔ تحفے۔
بے رنگ
’’رنگ کے بغیر، ہر حال میں ایک ہی رنگ رکھنے والی، بے تعصب۔‘‘  ص۔ ۳۴۷
صحیح مطلب:  غیرمحدود، بے تعین
حرفِ محرمانہ
’’واضح بات، سمجھ میں آنے والی بات۔‘‘  ص۔ ۳۵۳
صحیح مطلب:  اندر کی بات، عارفانہ بات
سیمابی
’’پارے کی طرح مضطرب۔‘‘  ص۔ ۳۵۷
صحیح مطلب: پارے کابنا ہوا۔
مسحورِ غرب
’’مغرب کے طور طریقوں کے سحر میں آنا۔‘‘  ص۔ ۳۶۶
صحیح مطلب:  جس پر مغرب کا جاود چل گیاہو۔
مصلحت
’’نیک تجویز، اچھا مشورہ۔‘‘  ص۔ ۳۷۲
صحیح مطلب:  خوبی، خیر
گیاہِ بام
’’چمکتی ہوئی گھاس، صاف نظر آنے والی گھاس۔‘‘  ص۔ ۳۷۵
صحیح مطلب:  اونچی اور گھنی گھاس
دیارِ عشق
’’عشق کی زمین، عشق کی حدود میں واقع علاقہ۔ عشق کا علاقہ لامحدود ہے کیوں کہ اس میں رنگ، نسل اور قومیت کی حدود نہیں ہوتیں، مراد پوری دنیا۔‘‘  ص۔ ۳۸۷
صحیح مطلب: عشق کی اقلیم، عاشقوں کا جہان۔

مشتِ نمونہ کے طورپر اتنے اندراجات کافی ہیں۔
میری رائے میں یہ کتاب خواجہ محمد ذکریا صاحب کی اقبال شناسی کی صحیح ترجمانی نہیں کرتی۔ کاش اگلی اشاعت سے پہلے اس پر اچھی طرح سے نظرِ ثانی ہوجائے۔

اقبال- تصورِ زمان و مکاں پر ایک گفتگو

احمد جاوید
ضبط و ترتیب: طارق اقبال

مابعد الطبیعی مباحث یا تو کسی دعوے سے پیدا ہوتے ہیں یا پھر کسی دعوے تک پہنچنے کے لیے۔ پہلا طریقۂ کار فکر کی دینی روایتوں میں اختیار کیا جاتا ہے جب کہ دوسرا فلسفۂ مابعد الطبیعیات میں۔ فکر کی دینی روایت میں عقل کا کردار اک گو نہ مرکزیت رکھنے  کے باوجود لامحدود ہوتا ہے نہ فیصلہ کن، بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ وہ شعور جو ان مباحث کے مقابل ہوتا ہے، اس کی بناوٹ فلسفیانہ معنی میں عقلی نہیں ہوتی، یہ روایت تحقیقِ حقائق کا جو مخصوص اور متعین اسلوب رکھتی ہے اُس میں نتائج کی تشکیل میں ایک اہم عنصر وجدان کا ہوتاہے جو دراصل ایک خاص معنی میں عقل کے منطقی ہوجانے کا ہی نام ہے، تاہم عقل کا منطقی ہوجانا کوئی سادہ عمل نہیں ہے۔ اس کا ایک پیچیدہ پراسس ہے جو شعور کی اُن سطحوں پر کار فرما ہوتا ہے جو ارادی نہیں ہیں، اور اُن کے مشمولات، فکر کے لیے درکار مواد سے مماثلت یا کم از کم ایسی مشابہت نہیں رکھتے جو چیزوں میں ہم نوعی کا رنگ پیدا کرتی ہے۔ اگر clinical اپروچ کا مطالبہ نہ کیا جائے تو یہ بات قابلِ قبول معلوم ہوتی ہے کہ یہ مشمولات اپنی حسی جہت میں بھی حواس کے مُعطیات سے نوعاً مختلف ہیں۔ یہ اختلاف یا امتیاز محض استدلال، ادراک اور نفی و اثبات کے معمولی حدود و شرائط ہی کو تبدیل نہیں کرتا بلکہ چیزوں کو اُن کے فوری تعینات سے منقطع کیے بغیر انھیں اس طرح reconstruct کرتا ہے کہ شے معلوم، علم بالحواس کی عائد کردہ قیود سے تجاوز کرکے بھی اپنی actualization کی وہ وضع بعینہ برقرار رکھتی ہے جو اثباتِ حسی کے عمومی عمل سے پوری طرح ہم آہنگ ہے۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ چیزوں کی یہ reconstruction جس کے نتیجے میں اُن کی realization، اُن کی actualization پر غالب آجاتی ہے، noumenal نہیں ہے۔ ایک تو اس وجہ سے کہ مابعد الطبیعی فکر، صورت و حقیقت کی دوئی کو مستقل مان کر شے کی موجودیت اور معلومیت کے اٹل امتیاز کو قبول کرنے کی متحمل نہیں ہوسکتی، کیوںکہ حقیقت کو اپنے اثبات کے لیے جو تنزیہ درکار ہے اُس میں صورت ایک سلبی حوالہ ہے نہ کہ متوازی۔ اور دوسرا سبب یہ ہے کہ شیٔ محسوس صرف صورت ہے، حقیقت نہیں۔ یعنی حقیقت کے لیے جو تنزّہ (transcendence) لازمی ہے، وہ دائرۂ محسوسات میں نہیں سما سکتا۔ Thing A چاہے Thing AB بن جائے، حقیقت کا container نہیں بن سکتی، رہے گی صورت ہی۔ حقیقت کا موجود ہونا اُس کی self containment سے عبارت ہے اور اُس کی معلومیت self- disclosure پر مبنی ہے۔ بودن و معلوم گشتن کا یہ امتیاز ناگزیر ہونے کے باوجود حقیقی نہیں ہے بلکہ اعتباری (اور اس کی ناگزیری بھی تمام تر واقعیت رکھنے کے باوجود نفسِ حقیقت کی رو سے اعتباری ہی ہے)۔
اس اصول کی روشنی میں اگر ہم Time-Space کے مسئلے کو دیکھیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ حقیقت اور اس کی کثیر المراتب نسبتوں کے تحقّق کی ہر نوع میںادراک کی عنصری بناوٹ اور ذہنی وضع یکسانی کے ساتھ برقرار رہتی ہے مگر مدرکات اور اُن کے سلبی و ایجابی حدود منقلب ہوجاتے ہیں۔ حقیقت اپنے تحقق کے ہر مرحلے پر بہت سے موجود مدرکات اور ان کی ترکیبی ہیئت کی محویت کا تقاضا کرتی ہے یعنی ادراک و اثبات کی اس سطح پر صورت و حقیقت کے وہ مشترکات جن کے بغیر خود علم محال ہے، اپنی اضافیت کو منکشف کرتے ہیں اور ایک دائرے سے دوسرے دائرے میں پہنچ کر ان میں سے وہ امور ساقط ہوجاتے ہیں جن سے گزشتہ دائرے میں ان کی ماہیت متعین ہوتی تھی، یا باالفاظِ دیگر لوازمِ ادراک اور شرائطِ وجود جس وصفی نہائیت پراستوار ہیں، وہ دوسرے دائرے میں منتقل نہیں ہوتی۔ واقعیت اعتبار بن جاتی ہے اور وصف، موصوف کی تبدیلی سے ایک نئے وجودی pattern میں ڈھل جاتا ہے۔ Time-Space وجود کی ایک خاص حالت اور ادراک کی ایک مخصوص صورت کے لوازم ہیں۔ وجود کی سطح اور ادراک کا معروض بدل جائے تو ان کا لزوم ممکن ہے کہ باقی نہ رہے، یا اس کی نوعیت میں کوئی ایسی تبدیلی واقع ہوجائے جو اس کی بنیادی تعریف کو بدل کر رکھ دے۔ قبلیت، بعدیت، ظرفیت اور حرکت ضروری نہیں کہ وجود کے دیگر مراتب میں بھی اسی طرح کار فرما ہوں جس طرح Time-Space کے موجودہ تعین میںہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ Time-Space کی signifying حیثیت حقیقت کے تمام ظہوری مراتب میں لازماً برقرار رہتی ہے تاہم مابعد الطبیعی فکر کے مطابق ان کی دلالت، مدلول کے تابع ہونے کی وجہ سے تبدیل ہوجاتی ہے۔ وجود کے اصولی طور پر دو مراتب ہیں: حادث و محدود اور قدیم و لامحدود۔ پہلے مرتبے میں Movement-Sequence کی حکومت ہے اور دوسرے میں Change lessnes-Spontenity وجود کی فضا کو تشکیل دیتی ہے۔ چونکہ Time-Space وجود کے پورے ماحول کا نام ہے لہٰذا وجود کی وصفی ماہیت یعنی اُس کی ظہوری حالت اور تعین کی تبدیلی نہ صرف یہ کہ Time-Space پر وارد ہوگی بلکہ اُن کی ذاتی بناوٹ کو بھی تبدیل کرکے اس وجودی امتیاز سے ہم آہنگ کرے گی۔
اندریں صورت مابعد الطبیعی فکر کا مقدمہ وجود کی اصالت، ظہور کا تنوع اور Time-Space کی اضافیت سے ترکیب پاتا ہے۔ اس مقدمے کے تینوں اجزا آپس میں ایک ایسی عینیت کے حامل ہیں جو اپنی actual جہت میں مطلق ہے مگر اضافیت کے ساتھ، اور اضافی ہے مگر مطلقیت کے ساتھ۔
گویا قدیم و لامحدود کے وجودی اور ایجابی سیاق و سباق میں Time-Space ایک واسطے کی حیثیت سے یا بعض علمی اقتضاء ات کی تکمیل کے لیے ایک حوالے کے طور پر تو بہرحال ہوتے ہیں مگر ایک ایسی نسبت کے ساتھ جو انھیں عالمِ حدوث و تحدید میں حاصل نہیں تھی۔ یہاں اُن کا کردار مؤثر نہیں ہوسکتا کیوںکہ اسبابِ تاثیر اِس مرتبے میں منہا ہوجاتے ہیں۔ ماہیت کی تبدیلی سے یہی مراد ہے۔
مسلمانوں کی علمی و عرفانی روایت سادہ لفظوں میں کہا جائے تو توحیدی یا خدا مرکز ہے۔ اپنی اطلاقی اور کونیاتی جہت میں اس روایت کو اپنے مرکز سے جڑے رہنے کے لیے عقلی سطح پر جس مسئلے کا شدت سے سامنا کرنا پڑا وہ یہی Time-Space کا مسئلہ ہے۔ وحدتِ حقیقی اور اُس کے محتویات کے اثبات میں جو سب سے بڑی رکاوٹ ہے، وہ ہے Time-Space کی مطلقیت۔ اسلامی فکر، عقلی ہو یا عرفانی، اِس رکاوٹ کو عبور کرنے کے کچھ اسالیب رکھتی ہے۔ اُن کی تفصیل میں جانے سے پہلے مناسب ہوگا اگر ہم اِس روایت کے بنیادی دھاروں پر کچھ ضروری گفتگو کرلیں تاکہ ابتدا ہی میں یہ واضح ہوجائے کہ یہ مسئلہ اور اس کی مخالفانہ شدت کا احساس و ادراک ہر ڈسپلن میں مشترک ہے، البتہ اِس سے عہدہ برا ہونے کی صورتوں میں تنوع یا اختلاف پایا جاتا ہے۔
حقیقتِ وجود، جس تک پہنچنے کے لیے زمان و مکاں کی ماہیت کا تحقق ضروری ہے، مسلمانوں کے لیے تنزیہی ہے۔ خیال رہے کہ تنزیہی کا مطلب عقلی و ذہنی نہیں ہے کیوں کہ اس میں وجودِ خارجی کی نفی نہیں پائی جاتی۔ مسلم روایت میں تنزیہ اُس موجودیت فی الخارج کو کہتے ہیں جس پر کوئی حد و شرط وارد نہ کی جاسکے، حتیٰ کہ وجود کی بھی ۔۔۔۔۔ تنزیہ اور اُس کے ایجابی تقاضے، یعنی ٔاثباتِ خاص بذریعۂ نفیِ عام، کے تحت متقدمین میں زمان و مکاں کا موضوع کسی مرکزی اہمیت کا حامل نہیں ہے۔ بعد میں جب اثبات کے حدود ذہن تک پھیلنے لگے اور نفی قدرے مبنی براستدلال ہوگئی تو صوفیا، متکلمین اور فلاسفہ نے اپنے اپنے منہاج کے مطابق ذہن و فکر پر ایک نظری اور مابعد الطبیعی پیرائے میں کلام کا آغاز کیا۔
مسلمانوں میں Time-Space کا تصور تین سطحیں رکھتا ہے: طبیعی، عقلی اور الٰہیاتی۔۔۔۔۔ طبیعی سطح پر مکاں مادی ہے اور زمانہ حرکتِ مکاں۔ اِس بات کے دو مطلب ہیں، مکاں ایک متحرک جسم ہے جس کی حرکت اپنی ذہنی اور خارجی صورت میں وقت ہے۔ اس کے جسم اور حرکت کی طرح، وجودی سطح پر زمان و مکاں ایک ہی حقیقت کے دو پہلو ہیں جن میں ایک دوسرے سے تقدم کا سوال بے معنی ہے۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ زمانہ حرکت ہے اور مکاں اُس حرکت کا ظرف۔ عقلی سطح پر مکاں ظرفِ وجود ہے اور زمان، مقدارِ وجود۔ گو کہ یہ عقلی سطح کا پورا بیان نہیں ہے، وہ ہم آگے کریں گے، تاہم یہ وہ سطح ہے جہاں عقل حسّی معطیات پر حکم لگاتی ہے اور حقیقت کے محسوس ہونے کو اپنا بنیادی مفروضہ بنا کر آگے بڑھتی ہے۔ یہاں عقل کا یہ کردار محسوسات سے تجاوز کرکے بھی اپنی اساس میں حسّی ہی رہتا ہے، مثلاً زمان و مکاں ہی کے مسئلے کو لے لیں تو یہ چیز واضح نظر آتی ہے کہ وجود کی ورائے حواس جہت کا اثبات کرنے کے باوجود وہ موجود ہونے کی جس زمانی مکانی تعریف پر کھڑی ہے وہ اوّل سے آخر تک حسّی ہے۔ وجود کی containment اور historisization کا کوئی بھی تصور محسوسات کے دائرے ہی میں ممکن ہے اور عقل اس تصور کو زمان و مکان کے مسلّمے کی مدد سے تصدیق پذیری کے مراحل طے کرتے ہوئے دکھانے کی کوشش کرتی ہے۔ یہ عقلِ محض کی سطح ہے۔ یہاں مکاں، لامحدودیت اور زمان، لامتناہیت کی مختلف نسبتوں کے مظاہر ہیں۔ یعنی مکاں سے لامحدودیت اور زمان سے لامتناہیت کا فوقِ تجربی اثبات عقلاً ممکن ہو جاتا ہے۔ ہم اس بات کو نہیں چھیڑیں گے کہ ایسی لامحدودیت اور لامتناہیت جو زمان و مکاں کی مدلول ہو، ریاضیاتی اور منطقی تو ہوسکتی ہے، واقعی اور خارجی نہیں۔ تیسری سطح یعنی الٰہیاتی سطح پر Time-Space اپنی آخری ممکن الاثبات حیثیت یعنی وجود کی نسبت کے طور پر بھی معدوم ہیں۔ بقولِ اقبال، ’’نہ ہے زمان نہ مکاں  لَآ اِلٰہ الا اللّٰہ۔‘‘ ۱؎ چونکہ وجود کے الٰہیاتی مرتبے میں نسبت بھی ساقط ہے لہٰذا یہاں time-space کا ہونا محال ہے۔
اب ہم اسلامی روایت کے تین بنیادی عناصر یعنی کلام، فلسفے اور تصوف میں دیکھیں گے کہ ان کا منہاج کیا ہے اور اُس منہاج کی روشنی میں time-space کی حقیقت اور معنویت کیا ہے؟ بات شروع کرنے سے پہلے یہ تنبیہ ضروری ہے کہ مسلمانوں کی علمی اور عرفانی روایت اپنے ہر جز میں نزولی اور استخراجی ہے۔ حقیقت مقدمہ بھی ہے اور نتیجہ بھی۔
متکلمین کا منہاج یہ ہے کہ حقیقت، وحی یعنی خود اپنے بیان کے ذریعے سے ظاہر ہوتی ہے اور عقل کی مدد سے سمجھی جاتی ہے۔ گویا حقیقت، بیانِ حقیقت، فہمِ حقیقت اور استدلال مبنی بر فہم۔۔۔۔۔۔۔۔ اِس منہاج کا مقدمہ ہے۔ حقیقت خود اپنے بیان کی رو سے قدیم اور لامحدود ہے لہٰذا عقل کی ذمے داری ہے کہ وہ اِس سے کوئی ایسی چیز منسوب نہ کرے جس سے ان دو اوصاف پر ضرب پڑتی ہو۔ زمانہ حقیقت کو قدیم نہیں رہنے دے گا اور مکاں، لامحدود۔ اہلِ کلام جب اللہ کو لازمان و لامکاں کہتے ہیں تو ان کی مراد یہی ہوتی ہے کہ وہ زمانی یعنی حادث نہیں ہے اور مکانی یعنی محدود نہیں ہے۔ اُن کے نزدیک زمان اصلِ حدوث ہے اور خود حادث ہے اور مکاں اصلِ تحدید ہے اور خود محدود ہے۔ حادث اور محدود کا قیام قدیم اور لامحدود کے ساتھ محال ہے۔ اور پھر یہ بھی ہے کہ حقیقت کا ذاتی تعین یعنی وحدت اس بات کی متقاضی ہے کہ موجودیت کے اُن قطبینی عوامل کی نفی کردی جائے جو موجودات میں ہم وجودی کی دلیل بنتے ہیں۔ خصوصاً زمان و مکاں چونکہ ایک مطلقیت رکھتے ہیں لہٰذا وجود کے الٰہیاتی مراتب میں جہاں کا اصو ل مطلق وحدت ہے، ان کا اثبات کچھ لاینحل مشکلات پیدا کرسکتا ہے۔
فلاسفہ یعنی مابعد الطبیعیات کو فکر و نظر کا موضوع بنانے والے طبقے میں عقل کا کردار، اہلِ کلام کے برعکس، ایک حتمی اور مستقل حیثیت رکھتا ہے۔ ان لوگوں کا منہاج حقیقت، تعقلِ حقیقت اور بیانِ حقیقت ہے۔ فلسفے کی مجبوری یہ ہے کہ وہ کسی چیز کو عقل پر حکم نہیں بناسکتا، اس لیے مسلمانوں کی فلسفیانہ روایت میں بھی آخری حجّت عقلی ہی ہوتی ہے۔ وحی عقل کا قابلِ اعتماد معروض ہے لیکن اس کا content جس حد تک حقائق سے تعلق رکھتا ہے، فلاسفہ کی نظر میں لفظی نہیں بلکہ عقلی ہوتا ہے یا معقولات ہی کی تصدیق کرتا ہے۔ ان لوگوں کے خیال میں حقیقت اور بیانِ حقیقت میں جزوی عینیت ہے، اور وہ بھی بیان میں نہیں بلکہ عقل میں پائی جاتی ہے۔ مختصر یہ کہ وحی حقیقت کے عموم کو ایک بیان کی صورت میں خاص کرتی ہے، عقل اِس تخصیص کو وسعت اور زیادہ قطعیّت دے کر اُس عموم سے نزدیک تر کردیتی ہے جو بیان اور فہمِ بیان کے مذہبی تلازم میں نہیں سما سکتا۔ فلاسفہ کا مقدمہ یہ ہے کہ حقیقت اصالتاً معقول ہے جس کی تائید وحی سے بھی ہوتی ہے۔ time-space حقیقت کے ذاتی اطوار ہیں لہٰذا وقت اور مادّے کا قدیم ہونا حقیقت کی وحدت کو مجروح نہیں کرتا اور اُسے لائقِ اثبات بناتا ہے۔ یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ تمام مسلمان فلسفیوں کا یہی مؤقف ہے لیکن اس کے باوجود ہم خود کو ایک محفوظ پوزیشن پر رکھتے ہوئے یہ کہہ سکتے ہیں کہ حدوثِ زمان کو جن فلاسفہ نے قبول کیا ہے وہ بھی درحقیقت قدمِ زمان ہی کے قائل ہیں۔ اس کی تفصیل میں جانا ممکن نہیں، سرِدست ہم اتنا ہی کہ سکتے ہیں کہ حدوثِ ذاتی اور حدوثِ زمانی کا فرق محض ایک ذہنی چیز ہے اس سے نفس الامر کا تحقق نہیں ہوتا۔
اس مبحث میں صوفیہ کے مؤقف کو جاننا اس لیے بھی ضروری ہے کہ تصوف کی علمی روایت فلسفہ و کلام کے نقطۂ کمال سے اپنا آغاز کرتی ہے۔ وہ بڑے بڑے مسائل اس روایت میں بھی اُٹھائے گئے ہیں جو فلسفہ و کلام میں بنیادی اہمیت کے حامل ہیں۔ تاہم صوفیہ حقائق کے تقابل میں شعور کے rational structure پر انحصار کرنے کی بجائے اس کی حسّی تشکیلات پر زور دیتے ہیں۔ reality as Such اور reality as a discource کا باہمی ربط، فلاسفہ و متکلمین کی طرح ان کا بھی موضوع ہے لیکن یہ حضرات اس ربط کو فہم و تعقل نہیں بلکہ ایک انفعالی تجربیت کے ذریعے سے دریافت کرتے ہیں جو حس و محسوس کی اِسی نسبت بین الطرفین پر قائم ہے جس سے ہم مانوس ہیں، مگر فرق یہ ہے کہ صوفیانہ تجربے میں طرفین کی مغائرت واقعتا ناگزیر اور واجب الاثبات ہونے کے باوجود اعتباری ہے۔ مکمل انفعال جو علم الحقائق کی لازمی شرط ہے، اس کا حصول ایک طرف تو طرفین کی غیریت کا متقاضی ہے اور دوسری طرف عینیت کا۔ غیریت نہ ہو تو انفعال کا بیج ہی نہیں پڑ سکتا، اور عینیت نہ ہو تو اس کی تکمیل محال ہے۔ اس paradox کو حل کرنے کا یہی طریقہ ہے کہ غیریت اعتباری ہے اور عینیت حقیقی۔ صوفیہ نے اس طریقے کو کام میں لا کر علم الحقائق کے راستے میں آنے والی اُن رکاوٹوں کو گرانے میں خاصی کامیابی حاصل کی جنھوں نے اہلِ فلسفہ و کلام کو بے دست و پا کر رکھا تھا، مثلاً یہی مسئلۂ زمان و مکاں دیکھ لیں۔ فلاسفہ کو ان کی ازلیت و ابدیت کے اقرار پر مجبور ہونا پڑا اور متکلمین کے پاس اس کے سوا کوئی راستا نہیں رہ گیا تھا کہ وہ time-space کو عالمِ خلق سے اوپر کے مراتب میں سرے سے موجود ہی نہ مانیں۔ صوفیہ کا موضوع ہی ایسا ہے کہ انھیں یہ مجبوریاں لاحق نہیں ہوئیں۔ ان کا موضوع ہے: حقیقت باعتبارِ تعینات، یا بالفاظ ِ دیگر مراتبِ ظہور ۔۔۔۔ اس موضوع میں ایسی وسعت ہے کہ time-space کے دائرے کو جتنا چاہے بڑھا لیا جائے، رہتا اس کے اندر ہی ہے۔ یعنی time-space بلحاظِ ماہیت و فعلیت، ظہور کے ایک خاص درجے سے تجاوز نہیں کرسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ صوفی کے لیے یہ کہنا ممکن ہے کہ زمان و مکاں، وجود کی شرط نہیں بلکہ ایک نسبت ہے اور اس حیثیت میں اُس کا حکم بدلتا رہتا ہے۔ اس کا درجہ ایک سلبی حوالے کا سا ہے جو اعتبار کے اصول کو متعین کرتا ہے اور تحققِ حقیقت کی حرکتِ دوری یعنی تشبیہ تنزیہ، تنزیہ میں تشبیہ کا درمیانی وقفہ/ عرصہ اسی پر مدار رکھتا ہے۔ اپنے ان حدود میں صوفیہ کے نزدیک زمان غیر متناہی ہے مگر مظہرِ کثرت ہے، جب کہ مکاں مظہرِوحدت ہے مگر محدود ہے۔ یہ دونوں، ازروئے ماہیت، ایک دوسرے پر over lap کرتے ہیں، یعنی زمان کی غیر متناہیت مکاں کے حوالے بغیر متحقق نہیں ہوسکتی اور اسی طرح مکاں کی محدودیت بھی ایک گہرے معنی میں زمانی ہے۔ یہی حدوث کی حقیقت ہے کہ time space یک اصل اور ہم احتوا ہو کر درجۂ امتیاز اور مرتبۂ فعل میں باہم معرّف بنیں اور ایک دوسرے کے حدود و قیود کو نہ صرف یہ کہ واضح کریں بلکہ انھیں اپنے لیے بھی قبول کریں۔
تصوف جس علم الحقائق کا وارث ہے وہ دو ایسے مراتب کو محیط ہے جن میں سے ایک عالم کی جہت سے اس کے علمی تعین کی ایسی تشکیل کرتا ہے جو مفیدِ اثبات ہو اور بعض پہلوئوں سے قابلیتِ نفی بھی رکھتی ہو۔ اس کا دوسرا مرتبہ معلوم کی جہت سے ہے، جہاں حقیقت معلومہ وجوداً متعین ہوتی ہے۔ اس تعین میں وجود حقیقی ہے اور مابہ التعیین اعتباری۔ صوفیہ کو آغاز ہی میں یہ سہولت میسر آگئی کہ صحت فکر و استدلال کے تمام منطقی لوازم و معیارات کو ملحوظ رکھتے ہوئے حقیقت کے تقابل میں انھوں نے ایک ایسا paradox وضع کیاجس کی درست تفہیم کے بغیر حقیقت کا کوئی تصور قائم نہیں کیا جاسکتا۔ جس سہولت کا ہم نے ابھی ذکر کیا اس کا ایک اظہار time-space کے مسئلے میں بھی دیکھا جاسکتا ہے۔
ایک صوفی کے لیے یہ سمجھنے اور ماننے میں کوئی منطقی الجھن نہیں ہے کہ زمان و مکاں کا تعلق ’’موثر ہونے یا اثر پذیر ہونے‘‘ کی جہت سے اقلیم تشبیہ ہی سے ہے اور تشبیہ ضرورتِ ادراک ہے، ضرورتِ وجود نہیں۔ یہ خیال رہے کہ تشبیہ محض طبیعیات تک محدود نہیں ہے بلکہ مابعد الطبیعی امور بھی اس میں داخل ہیں۔ تشبیہ کا اصول یہ ہے کہ صورت اپنے امتیاز کو محفوظ رکھتے ہوئے معنی پر ایسی دلالت کرے جو طرفین میں لزومِ عینیت کا شبہ نہ پیدا کرے۔ چونکہ ادراک اپنی ہر نوع میں بامعنی صورت کے حصول ہی کا نام ہے لہٰذا مدرکات حقائق پر دال تو ہیں لیکن نفسِ حقیقت سے ان کی مغائرت مستقل ہے اور حقیقت کے ذاتی مرتبے میں یہ اپنی ہر نسبت کے ساتھ ساقط ہیں۔ اسی لیے جب صوفیہ حقیقت کے ورائے ظہور مراتب میں زمان ومکاں کی نفی کرتے ہیں تو اس سے کوئی منطقی خلل بھی واقع نہیں ہوتا، بلکہ اس سے بڑھ کر یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ خود مدارجِ ظہور کی تبدیلی سے بھی شے کا وصف نہائی منقلب ہوجاتا ہے۔
مختصر یہ کہ متقدمین میں حقیقت کا تنزہ مانع تھا زمان و مکاں کی ماہیت متعین کرنے سے۔ وہ حضرات اس امتیاز کو ایمان کے فطری اسلوب میں حل کرچکے تھے اور یہ اسلوب اپنے بیان میں مجروح ہوجاتا۔ متوسطین نے حقیقت کی تنزیہ کو برقرار رکھتے ہوئے تشبیہ کو اس کی طرفِ توازن بنایا تو زمان و مکاں کی ایک اضافی معنویت پر غور کرنے اور اسے تسلیم کرنے کی روایت شروع ہوئی۔ گویا متقدمین کا مسئلہ ایمان تھا تو متوسطین کا اثبات۔ متاخرین نے ضروریاتِ ادراک کو ترجیح دیتے ہوئے تنزیہ کو تشبیہ میں کھپا کر حقیقت کو ایک نیم تجسیمی جہت دے دی، جس کی وجہ سے زمان و مکاں حقیقت اور ناظرِ حقیقت کے درمیان ایک اٹل برزخ بن گئے اور تحقق حقائق کی تمام سرگرمیاں اسی مدار کے گرد گھومنے لگیں۔ مسئلہ یہ تھا کہ حقیقت کا خارجی تعین اپنی کلیت کے ساتھ جب ذہن میں منتقل کیا جانے لگا، یا ذہن کے خلقی مطالبات کی تکمیل کے لیے صرف ہونے لگا تو زمان و مکاں بطور ایک episteme کے ہر مرحلۂ اثبات پر ناگزیر ہوگئے، اور نتیجتاً تنزیہ غیر حقیقی یا کم از کم غیر متعلق ہو کر رہ گئی۔
اقبال اپنی بنیادی خصوصیات کی وجہ سے متاخرین میں شامل کیے جاسکتے ہیں۔ ان کا تصور زمان و مکان جو دراصل ان کے فلسفۂ خودی کا ایک جزو ہے، اس کی تشکیل میں جدید طبیعیات، نفسیات اور حیاتیات سے پھوٹنے والے فلسفے کا کردار بہت مرکزی اور بنیادی ہے۔ اقبال گو کہ اس سے مابعد الطبیعی اور اخلاقی نتائج نکالتے ہیں تاہم خودی کی طرح یہ تصور بھی اپنی نوع میں انسانی اور تشبیہی ہے۔ اس لحاظ سے اقبال کا شمار ان جدید ترین مفکرین میں ہوتا ہے جو انا اور وقت کے کائناتی تلازم کو نہ صرف یہ کہ حقیقی سمجھتے ہیں بلکہ ذات کے الوہی مراتب میں بھی زمانیت کی کسی نوع کو کارفرما دیکھتے ہیں، اور اس سے برآمد ہونے والے نتائج پر اہلِ مابعد الطبیعیات کی تشویش کو در خورِ اعتنا نہیں گردانتے۔
اقبال کے کسی خاص تصور کا مطالعہ کرنے چلیں تو آغاز ہی میں ایک مسئلہ پیدا ہوجاتا ہے، اور وہ یہ کہ اُن کا ہر تصور شاعری میں بھی بیان ہوا ہے، اور ضروری نہیں کہ شاعری میں اُس کی وہی صورت پائی جائے جو خطبات وغیرہ میں ملتی ہے۔ علامہ نے اپنے تمام بنیادی مباحث کی طرح مسئلۂ زمان و مکاں کو بھی اپنی شاعری کا ایک بڑا theme بنایا ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ کم از کم اس معاملے  میں اکثر مقامات پر محسوس ہوتا ہے کہ شعر میں اُن کا مؤقف خاصا بدلا ہوا ہے، بلکہ کہیں کہیں تو نثر میں بیان شدہ مؤقف کے الٹ ہے۔
دیکھنا یہ ہے کہ یہ فرق حقیقی ہے یا میڈیم کی تبدیلی سے محض تاثر کی سطح پر پیدا ہوا۔ اگر یہ فرق حقیقی ہے تو یہ معلوم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ تاریخی اعتبار سے اقبال کا نیا مؤقف کہاں بیان ہوا ہے، اور بالفرض اس فرق میں اگر کوئی حقیقت نہیں ہے تو بھی صرف میڈیم کی تبدیلی کی وجہ سے پیدا ہونے والا یہ امتیاز خطبات میں بیان شدہ مؤقف کو علیٰ حالہٖ رہنے دیتا ہے یا نہیں؟ اور پھر یہ بھی کہ شاعری کی وجہ سے کہیں کوئی ایسی چیز تو پیدا نہیں ہوتی جو خطبات میں اظہار پانے والے نقطۂ نظر کو اقبال کا حتمی نقطۂ نظر نہ ماننے پر مجبور کرتی ہو؟
کسی تفصیلی تجزیے میں جانے سے پہلے اگر ہم کوئی ایسا سبب تلاش کرسکیں تو بہتر ہوگا جس نے اقبال کی مجموعی فکر کو چند ناقدین کی رائے میں، جو ہمارے خیال کے مطابق نہ پوری درست ہے نہ پوری غلط، واضح طور پر دو خانوں میں بانٹ رکھا ہے۔ ان کو جو تصور بھی اقبال کے شعر میں آیا ہے وہ بعض اوقات اپنے نثری اظہار سے مختلف بلکہ متصادم نظر آتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کی وجہ خود فکر کا اندرونی تضاد نہیں ہے بلکہ دو صورتیں ممکن ہیں: یا تو اس طرح کی صورتِ حال فکری ارتقا سے پیدا ہوتی ہے ورنہ ذریعۂ اظہار کی تبدیلی اس فکر کے بنیادی اجزا کی ترکیب میں کوئی انقلاب پیدا کردیتی ہے جس سے اس کی تکمیلی ساخت بدلی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ ہمارے خیال میں اقبال کے ہاں یہ دونوں صورتیں کار فرما ہیں۔ کچھ مسائل میں وقت گزرنے کے ساتھ انھوں نے اپنی رائے پر نظرِثانی کی اور بعض معاملات میں موضوع مشترک ہونے کے باوجود ان کے poetic self اور philosophic self کا امتیاز برقرار رہا۔ ایسے مواقع پر تاویل درکار ہے جو اس امتیاز کو محو کیے بغیر کسی فکری دولختی کے تاثر کو ختم کرسکے۔ ہم یہ کوشش بھی کریں گے۔ سرِدست مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اقبال کے تصورِ زمان و مکاں پر ایک مجموعی نظر ڈالی جائے جس میں تجزیے کے دوران میں پیش آنے والے اختلافات پر پیشگی توجہ نہ کی جائے۔
اقبال بعض فلاسفۂ متوسطین کی طرح زمانے کو قدیم تو نہیں کہتے مگر حرکت کو حقیقت کا جوہرِ ذاتی قرار دینے کی طرف مائل نظر آتے ہیں۔ مزید مشکل اُس وقت پیدا ہوجاتی ہے جب وہ اس خیال کا اثبات ذاتِ انسانی کو وقت کی اس جہت سے متعلق کرکے کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو اسے مراتبِ الہیہ سے نسبت پیدا کرنے کے لیے درکار ہے یعنی دورانِ محض۔ کم از کم خطبات کی حد تک اقبال کے پیشِ نظر یہ بھی تھا کہ حقیقت زمان و مکاں تک پہنچنے کا وہ راستہ کس طرح ڈھونڈا جائے جس پر چل کر زمان و مکاں کی طبیعی تعریف اور مابعد الطبیعی تعبیر کو ایک کیا جاسکے۔ اس انداز نظر کا تجزیہ بہت ضروری ہے جو شے کی تعریف طبیعیات سے اخذ کرتا ہے اور تعبیر مابعد الطبیعیات سے۔ سچی بات یہ ہے کہ اس مرحلے پر اگر شاعر اقبال کی کمک فراہم نہ ہوتی تو ہم بری طرح فلسفی اقبال میں الجھ کر رہ جاتے۔ خطبات میں مختلف علوم کے حاصلات و غایات اور مقدمات و نتائج اکثر مقامات پر اس بری طرح خلط ملط ہیں کہ پڑھنے والا اتنا حیران ہوجاتا ہے کہ وہ متعین کرکے یہ بھی نہیں بتا سکتا کہ الجھن کہاں واقع ہوئی ہے اور کیا ہے۔ جدید علمیات کی پوری طرح پابندی کرتے ہوئے اقبال زمان و مکاں کو وجود کی لازمی شرائط سمجھتے ہیں لہٰذا ان کی فکر کے سیاق و سباق میں حقیقت کا زمانی مکانی ہونا ناگزیر ہے۔ دشواری اس وقت پیدا ہوتی ہے جب وہ اس ضرورت کا اطلاق دینی اخلاقی اور مابعد الطبیعی disciplines پر بھی کرنے لگتے ہیں۔ دینی فکر کی کوئی بھی قسم ہو اس میں غیب حقیقی اور مطلق ہے۔ یہاں حقیقت بر بنائے معلومیت واجب الاثبات نہیں ہے بلکہ بربنائے موجودیت۔ علاّمہ موجودیت اور معلومیت کے اس انتہائی امتیاز کو یا تو نظر انداز کردیتے ہیں یا اُسے رفع کرنے کی ایسی کاوش کرتے ہیں جس کے نتیجے میں حقیقت پر اس کا مظہر بلکہ ذہنی مظہر غالب آجاتا ہے اور حقیقت کے علمی ہی نہیں ذاتی حدود بھی اسی سے متعین ہوتے ہیں۔ یہ ایک ایسی چیز ہے جسے غزالی مانیں گے نہ کانٹ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ مختلف علوم کی purity کے جو نمائندوں کو رد کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ غزالی کا ورائے علم، یقین و اثبات ہو یا کانٹ کا یہ دعوا کہ حقیقت موجود ہونے کے باوجود ممتنع العلم ہے، مابعد الطبیعی مباحث میں اقبال کے لیے واضح طور پر بڑی رکاوٹیں ہیں جنھیں وہ کہیں شدت سے اور کہیں احتیاط سے گراتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ یہ اُن کی شاعری ہے جس نے حقیقت کے معلوم ہونے کی بجائے موجود ہونے پر اصرار کیا۔ ظاہر ہے کہ اس طرح کے اصرار کے لیے جو اخلاقی تحکم اور تخلیقی تخیلی درکار ہے وہ شاعری ہی میں فراہم ہوسکتا ہے۔ ہمیں غور سے دیکھنا پڑے گا کہ ایک ہی موضوع پر approach کا ایسا فرق جسے کسی دلیل سے رفع نہیں کیا جاسکتا اقبال کے ہاں کیا معنویت رکھتا ہے۔
اگر زمان و مکاں کے مسئلے پر focus کرکے دیکھیں تو بادی النظر میں یوں لگتا ہے کہ اس موضوع پر مفکر اقبال اور شاعر اقبال ہم رائے ہیں۔ خطبات اور شاعری متفق ہیں کہ زمانہ مختلف مراتب رکھتا ہے اور اس اختلاف کی ہر سطح حقیقی ہے۔ نیز موجودیت کا کوئی بھی درجہ ہو، زمانے کو وہاں سے خارج نہیں کیا جاسکتا۔ ہماری رائے میں یہ اتفاق اجمال میں ہے، تفصیل میں نہیں، اور ایسا ہونا فطری ہے۔ فلسفیانہ تفکر اور شعری تخیل اور اخلاقی اذعان میں ایسا اتفاق محال ہے جو انھیں جز بہ جز عینِ یکدیگر بنا دے۔ اس بات کی وضاحت کے لیے ہم خطبات میں اظہارپانے والے تصورِ زمان و مکاں کی تشقیق کریں گے اور پھر یہ کہ شاعری اس جز میں خاموش ہے یا متفق ہے یا مختلف۔ اس کے بعد اگر ضرورت پڑی تو یہ دیکھیں گے کہ خطبات یا شاعری میں اس مسئلے پر کوئی ایسی چیز تو نہیں ملتی جس سے دوسرا خالی ہو۔

۱۔ زمانہ ایک organic whole ہے  (۱)
۲۔ زمانہ اشیا کے جوہرِ نہائی کا صورت گر ہے  (۲)
۳۔ زمانہ شانِ خلق کا مظہر ہے:  (۳)
۳۔ وجودِ حق کا زمانہ، زمانِ حقیقی ہے، جس میں رہ کر وہ serial time کو جز بجز تخلیق کرتا ہے  (۴)
کائنات ایک آزاد تخلیقی آن ہے (۵)
۵۔حقیقتِ نہائی= دورانِ محض  (۶)
۶۔ زمان بطورِ خط پر تنقید  (۷)
۷۔ تغیر کی نوع  (۸)

مندرجہ بالا اقتباسات اقبال کے تصورِ زمان کے تمام ضروری اجزا کا احاطہ کرتے ہیں۔ جیسا کہ ہم پہلے کہہ چکے ہیں کہ اس مسئلے کی حد تک اُن کے خیالات، خواہ شعر میں ظاہر ہوئے ہوں یا نثر میں، کسی قابلِ ذکر تبدیلی یا اختلاف پر دلالت نہیں کرتے۔ اُن کا بنیادی مؤقف شروع سے آخر تک ہر جگہ ایک ہی رہا۔ اُن کے فکر و خیال سے تفصیلی واقفیت رکھنے والوں کے لیے یہ یکرنگی بعض وجوہ سے خوش گوار ہونے کے باوجود قدرے غیر متوقع بھی ہے۔ تکنیکی مہارت اور وقوفی گہرائی میں رفتہ رفتہ ہونے والے ناگزیر اضافے کو نظر انداز کردیا جائے تو خطبات میں اقبال جس تصورِ زمان تک پہنچے ہیں وہ اصولاًـ وہی ہے جو پندرہ سولہ برس پہلے اسرارِ خودی میں بیان ہوچکا تھا۔
گردش گردون کردٰن دیدنی است

انقلابِ روز و شب فہمیدنی است
ای اسیرِ دوش و فردا در نگر

در دلِ خود عالمِ دیگر نگر
در گِل خود تخمِ ظلمت کاشتی

وقت را مثلِ خطی پنداشتی
بازبا پیمانہ ی لیل و نہار

فکرِ تو پیمود طولِ روزگار
ساختی این رشتہ را زنّار دوش

کشتہ نی مثلِ بتان باطل فروش
کیمیا بودی و مشتِ گل شدی

سرِّ حق زائیدی و باطل شدی
مسلمی؟ آزاد این زنار باش

شمعِ بزم ملّتِ احرار باش
تو کہ از اصلِ زمان آگہ ز نی

از حیاتِ جاودان آ گہ ز نی
تا کجا در روز و شب باشی اسیر

رمزِ وقت ازلی مع اللہ یاد گیر
این و آن پیداست از رفتارِ وقت

زندگی سرّیست از اسرارِ وقت
اصل وقت از گردشِ خورشید نیست

وقت جاوید است و خور جاوید نیست
عیش و غم عاشور و ہم عید است وقت

سرِّ تابِ ماہ و خورشید است وقت
وقت را مثلِ مکان گستردہ ئی

امتیازِ دوش و فردا کردہ ئی
ای چوبودم کردہ از بستان خویش

ساختی از دستِ خود زندان خویش
وقتِ ماکو اوّل و آخر ندید

از خیابانِ ضمیرِ ما دمید
زندہ از عرفان اصلش زندہ تر

ہستی او از سحر تابندہ تر
زندگی از دہر و دہر از زندگی است

لاتسبو الدہر فرمانِ نبی است
(۹)
ان اشعار سے وقت کے بارے میں مندرجہ ذیل تصورات اخذ کیے جاسکتے ہیں:
۱۔ وقت اپنے ابتدائی اور عام تصور میں حرکتِ مکاں کے مترادف ہے۔
۲۔ وقت تجربی دائرے میں حرکت اور تغیر کا نام ہے۔
۳۔ دوش و فردا وقت کی مصنوعی تقسیم سے قائم ہونے والے مفروضے ہیں، ان کا وقت کی حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔
۴۔ وقت کی حقیقت کو apprehend اور experience کیا جاسکتا ہے۔
۵۔ وقت اور خودی لازم و ملزوم ہیں۔
۶۔ وقت کو subjectivize کرکے ہی اس کی حقیقت تک پہنچنا ممکن ہے۔
۷۔ وقت کے phenomenal حدود تک محدود رہنے سے انسان کے داخلی اور وجودی امکانات پر بھی روک لگ جاتی ہے۔
۸۔ وقت serial نہیں ہے ورنہ علم کا کوئی جواز رہے گا نہ وجود کا۔
۹۔ زمان و مکاں کا پیمانہ فکر کا وضع کردہ ہے جو اُن کی حقیقت تک رہنمائی نہیں کرتا۔
۱۰۔ وقت اپنی متداول تقسیم میں ایک افقی چیز ہے جو حقیقت کا container تو کیا experience بھی نہیں بن سکتی۔
۱۱۔ انسانی خودی اپنی ماہیت میں وقت کی حقیقت سے ہم آہنگ ہے۔ وقت کا زمینی تصور اس کو بھی متاثر کرتا ہے۔
۱۲۔ آدمی اپنی ذات پر غور کرکے زمان کی مابعد الطبیعی جہت تک پہنچ سکتا ہے۔
۱۳۔ وقت کی phenomenal حد کو توڑے بغیر اللہ پر ایمان اور اُس کے ہونے کا اثبات بے معنی بلکہ محال ہے۔
۱۴۔ خود انسانی ارادے، اختیار اور آزادی کا تقاضا ہے کہ وقت حرکت و تغیر کے کسی جبری سسٹم سے عبارت نہ ہو۔
۱۵۔ وقت اپنی اصل میں حدوث سے نہیں بلکہ قدم سے مناسبت رکھتا ہے۔
۱۶۔ انسانی خودی اپنی اصل میں زمان کے الٰہیاتی مراتب کو apprehend کرنے کی خلقی استعداد رکھتی ہے۔
۱۷۔ عالمِ طبیعی میں وجود اور زندگی حقیقتِ وقت کے جزوی مظاہر ہیں۔
۱۸۔ وقت اپنی اصل میں مکانی نہیں ہے۔ یہ ان تمام مکانی objects سے ماورا ہے جو اس دنیا میں اُس کے محرک کی حیثیت رکھتے ہیں۔
۱۹۔ وقت مکان کی نسبت سے مقدارِ حدوث ہے، یہ نسبت رفع ہوجائے تو خود وقت اور اِس کے وجودی متعلقات قدیم ہیں۔
۲۰۔ جوش و فردا کا امتیاز اُس شعور کا پیدا کردہ ہے جو چیزوں کو مکانی terms میں دیکھتا ہے۔
۲۱۔ عالمِ صورت میں مکان زمان پر غالب ہے جب کہ عالمِ معنی میں یہ غلبہ زمان کو حاصل ہے۔ اسی لیے حقیقت اپنے مزاج میں مکانی سے زیادہ زمانی ہے۔
۲۲۔ اصل وقت جس کا کوئی اوّل  و آخر نہیں، انسان اُس کا داخلی تجربہ کرسکتا ہے۔
۲۳۔ حقائق کی سطح پر وقت اور وجود عینِ یک دیگر ہیں۔

ان میں کوئی ایک نکتہ ایسا نہیں ہے جس کی صراحۃً یا کنایتہ خطبات سے تصدیق نہ ہوتی ہو، بلکہ یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ بلکہ خطبات میں زمان کا جو مجموعی تصور ملتا ہے وہ ان نکات پر کوئی اصولی اضافہ نہیں کرتا۔ اس لیے اگر ہم اقبال کے تصورِ زمان و مکاں کے اساسی پہلوئوں کی نشان دہی کے عمل میں خطبات تک محدود نہ رہیں تو بھی یہ اندیشہ نہیں رہتا کہ فلاں بات کہیں خطبات سے متصادم نہ ہو۔
اس مبحث میں علامہ کے حتمی مؤقف کی تعیین اور اس کے تجزیے کے لیے چند سوالوں سے گزرنا ناگزیر ہے، مثلاً وہ کون سی علمی غرض ہے جسے پورا کرنے کیلئے وہ زمان و مکاں کی ایک نئی تعبیر کے متلاشی ہیں؟ اور کیا وہ غرض پچھلی تعبیرات سے پوری نہیں ہوسکتی تھی؟ نیز خود وہ جس تعبیر تک پہنچے کیا اُس سے اُن کی غرض پوری ہوتی ہے؟
ہمارے نقطۂ نظر سے ان کے جوابات یہ ہیں:
۱۔ ذاتِ الٰہیہ سے زمان و مکاں کو جو شرائطِ وجود ہیں، کیا نسبت ہے؟ اس نسبت کو جدید ذہن کے لیے قابلِ قبول استدلال کے ساتھ واضح اور ثابت کرنا۔۔۔۔۔ یہ ہے وہ علمی غرض جو اس مسئلے پر غور و فکر کا محرک بنی۔
۲۔ یہ غرض پچھلی تعبیرات سے پوری نہیں ہوسکتی تھی کیوںکہ اُن کی بنیاد جس episteme پر تھی، وہ کلیۃً غیر مؤثر ہوچکا ہے۔
۳۔ خود اقبال کی وضع کردہ تعبیر بعض essential lackings کی وجہ سے یہ غرض پوری کرنے کے لیے کافی ثابت نہیں ہوئی۔
اب ان کی تفصیل:
مابعد الطبیعیات، خواہ بطورِفلسفہ و کلام ہو یا بطور Gnosticism، اپنی تمام سرگرمیاں ایک ہی مسلّمے سے شروع کرکے اُسی پر ختم کرتی ہے۔ وہ مسلّمہ ہے: وجودِ خداوندی جو فلسفے میں معقول، کلام میں مفہوم اور Gnosticism میں محسوس ہے۔ تعقل، فہم اور احساس کا امتیاز ایک ہی object کو کس طرح ایک نہیں رہنے دیتا۔ اس کی تفصیل میں جانے کے بجائے ہم گفتگو کا آغاز یہیں سے کریں گے کہ مابعد الطبیعیات کے یہ تینوں ڈسپلن جب دین کے تصورِ الٰہ کو تسلیم کرکے اپنے اپنے دائرے میں رہتے ہوئے اُس کی تحقیق کرنے نکلتے ہیں تو اسے اپنے داخلی مطالبات کی تکمیل کا ذریعہ بنا لیتے ہیں۔ جیسے فلسفہ ایک Ontology تشکیل دینا چاہتا ہے جس سے نظامِ عالم کی اصل عقلاً متحقق ہوجائے۔ وجودِ خداوندی اس کی پوری گنجائش رکھتا ہے کہ ذاتیت کو منہا کرکے بھی نظامِ عالم کی معقول اصل بن سکے۔ کلام چاہتا ہے کہ دین کے discource of the divinity کی تفہیم ممکن ہوجائے اور ذات و صفات اور اس طرح کے دیگر مسائل میں دینی حجیت، منطقی صداقت بھی بن جائے۔ اسی طرح Gnosticism کا مقدمہ ہے کہ وحدتِ ذاتی لازماً وجودی، مطلق اور عام ہوگی اور اسے موجودیت کی کسی سطح پر بھی کسی شرکت کو قبول نہیں کرنا چاہیے۔ اس کا بنیادی تقاضا یہ ہے کہ اس وحدت کو اللہ کے لیے ثابت کرکے تمام مظاہرِ کثرت سے مستقل وجود کی نفی کردی جائے۔
عقلی اور وجدانی شعور کے یہ مطالبات، وجود اور اس کی حقیقت و ماہیت پر غور کیے بغیر مکمل نہیں ہوسکتے۔ فلسفے میں وجود، مابہ الموجودیت ہے جس میں چند اوصاف لازمی ہیں:
۱۔ واحد ہو
۲۔ معقول ہو
۳۔ مسبوق بالعدم نہ ہو
۴۔ اسے عالمِ کثرت کا مصدر و منبع بنایا جاسکتا ہو
اس میں ذاتیت، علم، اختیار اور ارادہ چنداں ضروری نہیں۔ فلسفے میں وجود کو موجود پر تقدم حاصل ہے۔
اہلِ کلام کے ہاں وجود بمعنی مصدری ہے یعنی بودن۔ اس کی ماہیت موجود سے متعین ہوتی ہے، مثلاً موجود حقیقی اور قدیم ہے تو وجود بھی حقیقی اور قدیم ہوگا۔
Gnostics بھی فلاسفہ کی طرح وجود کو مابہ الموجودیت ہی سمجھتے ہیں مگر اس فرق کے ساتھ کہ ان کے نزدیک وجود و موجود identical ہے اور ان کی عینیتِ محض کا نقطہ جس میں دوئی نظری presence بھی نہیں رکھتی، ذاتِ الٰہیہ ہے۔ چونکہ عینیت کا خاصہ ہے کہ یہ اپنے افراد و مشمولات سے ماورا ہوتی ہے لہٰذا ذاتِ الٰہیہ وجود اور موجود دونوں سے ماورا ہے۔
فلسفہ کسی ایسی صورتِ حال کو تسلیم نہیں کرسکتا جس میں وجود، عدم کے بعد ہو۔ اگر زمان و مکاں کو کسی مرحلے پر ساقط کردیا جائے تو اس کا ایک ہی نتیجہ نکلے گا: عدمِ محض۔ اس لیے عقل زمان و مکاں کو شرطِ وجود قرار دیتی ہے اور وجود کے کسی بھی مرتبے کو اس سے خارج کرنے کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ موجودیت خواہ کسی بھی معنی اور مرتبے میں ہو، ماورائے زمان و مکاں نہیں ہوسکتی اور زمان و مکاں بھی واقعیتی فرق کو تو قبول کرسکتے ہیں مگر اپنی بنیادی اور ذاتی تعریف سے تجاوز نہیں کرسکتے۔ یہی وجہ ہے کہ عقل، دینی حقائق کو مان لینے کے باوجود، وقت اور مادّے کی قدامت کا انکار نہیں کرسکتی۔ گو کہ اکثر مسلمان فلاسفہ اس قدامت کو قدمِ ذاتِ الٰہیہ سے ممتاز کرتے ہیں، تاہم ایسا کرتے ہوئے وہ فلسفے کی سچی نمائندگی کرتے ہیں نہ دین کی۔
دوسری طرف متکلمین کا معاملہ یہ ہے کہ وہ عقل کو فہم و استدلال کے دائرے میں محدود کرکے اُسے اثباتی معنی میں text oriented بناتے ہیں۔ کلام کا مقصود بس اتنا ہے کہ دینی حقائق کو ماننے والی عقل اور اُس کے دلائل، دینی حقائق کو نہ ماننے والی عقل اور اُس کے دلائل پر حتماً غالب آجائیں اور یہ غلبہ ایک متفقہ اور مسلّمہ قانونِ استدلال پر استوار ہو۔ متکلمین کے نزدیک عدم، لاوجود کا نام نہیں ہے بلکہ لاموجود کا۔ اس لیے یہ مطلق نہیں ہے بلکہ اضافی اور انفرادی ہے، لہٰذا کسی چیز کا مسبوق بالعدم ہونا اہلِ کلام کے لیے وہ مشکلات نہیں پیدا کرتا جو فلاسفہ کو پیش آتی ہیں۔
زمان و مکاں کے بارے میں فلسفیانہ نقطۂ نظر یہ ہے کہ زمان ظرفِ وجود ہے اور مکاں ظرفِ موجود۔ اوصافِ وجود میں جو وصف سب سے زیادہ مستقل ہے، وہ زمانیت ہے، اور اوصافِ موجود میں وہ وصف مکانیت ہے۔ ذاتِ باری حقیقتِ وجود کے ساتھ موجود فی الخارج ہے تو ازروئے عقل اُس کا زمانی مکانی ہونا ضروری ہے ورنہ اُس کا کمال غیر متحقق رہ جائے گا۔ کلامی مؤقف یہ ہے کہ وقت وجود کی داخلی حرکت کا پیمانہ ہے اور مکاں اُس کے خارجی حدود کا تعین۔ حرکت اور محدودیت چونکہ ذاتِ الٰہ کے کمال کے منافی ہیں لہٰذا وہ زمانی ہے نہ مکانی۔ Gnosticism وجود و موجود اور زمان و مکاں کی لزومی نسبت کو فلاسفہ کی طرح تسلیم کرکے ذاتِ الٰہیہ کے وجود و موجود سے ماورا ہونے کا جو عقیدہ رکھتا ہے اس کا مقصد یہی ہے کہ اُس ذات سے زمانیت اورمکانیت کی نفی ہوجائے۔ اس کے بغیر ذاتِ باری کی تنزیہ ثابت نہیں ہوسکتی۔
مختصر یہ کہ زمان و مکاں کے مبحث میں اسلامی فکری روایت متوازی یا ایک دوسرے کو قطع کرتے ہوئے خطوط کی صورت میں جتنا سفر طے کرچکی ہے، اقبال نے اُس کے آخری مراحل میں سے بھی چند ہی کو گفتگو کو مستحق گردانا۔ فکرِ اسلامی کی نئی تشکیل کا ڈول ڈالنے کے لیے گو کہ اس روایت کی صورت گری کرنے والے تمام عناصر کو گرفت میں لینا ضروری تھا تاہم علامہ نے کسی وجہ سے اس کے بڑے حصّے کو نظر انداز کردینا مناسب سمجھا۔ اس موضوع پر انھوں نے جن تصورات کو تائیداً یا تردیداً quote کیا ہے، اُن پر ایک نظر ڈال لینی چاہیے:
اشاعرہ کا تصورِ زمانِ جوہری جو دراصل اُن کی الٰہیات کا ایک بنیادی حصّہ ہے، چند نازک مسائل کے حل کے لیے وضع کیا گیا تھا، مثلاً حیاتِ باری تعالیٰ کی ماہیت کیا ہے، اُس کا علم کس طرح کا ہے، کائنات کیسے خلق ہوئی؟ ربط الحادث بالقدیم کی نوعیت کیا ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔ آنات کو جواہر قرار دے کر انھوں نے مابعد الطبیعی ذہن کی کئی مشکلات رفع کیں اور اسے کچھ ایسے دلائل فراہم کیے جو ایک پہلو سے طبیعی بھی ہیں اور منطقی بھی۔ اس نظریے میں یقینا بہترے نقائص ہیں لیکن اس کا امتیاز اور اہمیت یہ ہے کہ اس  کے ذریعے سے مابعد الطبیعی ذہن کو وہ tool فراہم ہوگیا جسے استعمال کرکے زمان و مکاں کے حدود مقرر ہوسکتے ہیں، اور یہ مسئلہ غیر حقیقی ہوجاتا ہے کہ وجودِ باری زمانی مکانی ہے یا نہیں؟ اشاعرہ بلاشبہ اس نکتے پر پہنچ گئے تھے کہ جب تک زمان و مکاں کو ایک ہی وجودی ترکیب پر مشتمل و مبنی ثابت نہیں کیا جائے گا، ان کی قدامت اور مستقل لزو م کی تردید محال ہے۔ ہمیں یقین سے تو نہیں معلوم، لیکن یہ اندازہ بہرحال کیا جاسکتا ہے کہ وقت میں ایک طرح عنصریت کا اثبات اور اس کی ایک منظم ساخت کی عکاسی کرکے اشاعرہ نے نفس زمان میں وہ مکانیت دریافت کی ہے جس سے عاری ہو کر کوئی شے موجود اور مؤثر نہیں ہوسکتی۔ اور یہی مکانیت ہے جو زمانے کے مخلوق ہونے کی دلیل ہے۔ نیز آن کو جوہرِ سادہ کہہ کر اشعریوں نے ان امور کو قابلِ استدلال بنا دیا:
۱۔ حرکت و تغیر اور تسلسل و توالی، زمانے کے مستقل اور ذاتی اوصاف نہیں ہیں بلکہ ان کی حیثیت اعراض کی ہے۔
۲۔ آن جو مخ الزمان ہے essentially معدوم اور phenomenally موجود ہے۔ اس لیے زمانہ جو مجموعۂ آنات ہے ریاضیاتی پیمانے سے غیر متناہی ہونے کے باوجود قدیم یعنی لااوّل و الآخر نہیں ہوسکتا اور قابلیتِ عدم اس میں بھی پائی جائے گی۔
۳۔ آن body of time ہے جس کی بنیاد پر وقت معدودیت، تحدید اور تجزیے کو قبول کرتا ہے اور موجودیت فی الخارج کی کونیاتی شرط یعنی مکانی پن کو بھی پورا کرتا ہے۔
۴۔ وقت noumenally ہی نہیں structurally بھی ساکن ہے۔ اُس کے mechanism کی نسبت اُس کی ماہیت سے نہیں بلکہ خالقِ مطلق کے تخلیقی ارادے اور قدرت سے ہے۔ یہ اُن کا مظہرِ اوّل ہے۔
۵۔ زمانہ، تابع موجود ہے یعنی Essence یا خودی کو اس پر تقدم حاصل ہے البتہ وہ تقدم principial ہے نہ کہ phenomenal۔
مختصر یہ کہ مکانیت کو زمان اور زمانیت کو مکاں کی ماہیت میں داخل کرکے اشاعرہ نے ان کی عینیت و غیریت کو جس طرح آپس میں گوندھ دیا ہے وہ مسلم فکر کے بڑے کارناموں میں سے ایک ہے۔ یہ نظریہ تشکیل نہ پاتا تو وجود کی زمانیت اور مکانیت کا قضیہ ایک مطلق حکم کے طور پر برقرار رہتا اور مابعد الطبیعی discource کا امکان ماند پڑ جاتا۔
اقبال atomic time کے تصور کو رد کرتے ہیں۔ اُن کے اعتراضات کی نوعیت ان اقتباسات سے واضح ہے:
1, 'In fact the Ash`arite vaguely anticipated the modern notion of point-instant; but they failed rightly to see the nature of the mutual relation between the point and the instant... The point is not a thing, it is only a sort of looking at the instant.' ۱۰؎
2- 'Thus a criticism, inspired by the best traditions of Muslim thought, tends to turn the Ash'arite scheme of atomism into a spiritual pluralism..." ۱۱؎
3- 'Time, according to the Ash‘arite, is a succession of individual ‘nows’. From this view it obviously follows that between every two individual ‘nows’ or moments of time, there is an unoccupied moment of time, that is to say, a void of time. The absurdity of this conclusion is due to the fact that they looked at the subject of their inquiry from a wholly objective point of view. ۱۱۔ ا؎لف
4- '... the constructive endeavour of the Ash ‘arite, as of the moderns, was wholly lacking in psychological analysis, and the result of this shortcoming was that they altogether failed to perceive the subjective aspect of time. It is due to this failure that in their theory the systems of material atoms end time-atoms lie apart, with no organic relation between them. ۱۱۔ ب    ؎
5- 'It is clear that if we look at time from a purely objective point of view serious difficulties arise; for we cannot apply atomic time to God and conceive Him as a life in the making. ۱۱۔ ج     ؎

اسی طرح کے اعتراضات ہیں جن کی بنا پر اشاعرہ کے نظریۂ تخلیق کے بعض گوشوں کو سراہنے اور اس کی اہمیت کا اعتراف کرنے کے باوجود ۱۲؎ علامہ Atomic time کے تصور کو سرے سے رد کردیتے ہیں۔۱۳؎ اس معاملے میں ہم نے اپنی رائے نمبروار پہلے ہی عرض کردی ہے لہٰذا اقبال کی تنقیدات پر خاص طور سے تبصرہ کرنا غیر مناسب محسوس ہوتا ہے۔ تاہم اتنا کہنے میں شاید کوئی حرج نہ ہو کہ اس مسئلے پر اقبال نے اشاعرہ پر جو اعتراضات کیے ہیں اُن کا خلاصہ یہ ہے کہ اشاعرہ کا نظریہ ذات یا خودی اور زمان کی لازمی نسبت پر کوئی روشنی نہیں ڈالتا کیوںکہ یہ objective بہت ہے، یعنی اشعریوں کا زمان یک سطحی ہے جو مثال کے طور پر زمانِ الٰہیہ کی نوعیت سمجھنے میں کوئی مدد نہیں کرتا۔ ۱۴؎
اشاعرہ کی اس کمی پر خود مسلم روایت سے دلیل لانے کے لیے اقبال، عراقی اور دوّانی کا حوالہ دیتے ہیں جو ان کے برعکس زمان و مکاں کی اضافیت کا دعویٰ کرتے ہیں۔ ۱۵؎
یہاں دو باتوں کی وضاحت ضروری ہے۔ ایک تو یہ کہ ’غایتہ الامکان‘ صوفی شاعر فخر الدین عراقی کی تصنیف نہیں ہے، اس کے مصنف محمود اشنوی ہیں اور ملا جلال الدین دوانی اضافیتِ زمان و مکاں کے قائل نہیں تھے، بلکہ اس معاملے میں اُن کا مؤقف وہی تھا جو اسلامی فلسفے کے بعض ائمہ مثلاً ابنِ رشد وغیرہ کا تھا، یعنی جو وجود متحرک، متغیر اور محدود نہیں ہے، زمان و مکاں اُس کے ساتھ نسبت نہیں رکھتے۔ اس کے لیے ’’زوار‘‘ سے رجوع کیا جاسکتا ہے۔
گو کہ نتیجے کے اعتبار سے اشنوی کا مؤقف روایتی ہی ہے لیکن اُس کا بیان ظاہر کرتا ہے کہ انھیں اس مبحث پر وہ گرفت، مہارت اور بصیرت میسر نہیں تھی جو بڑے لوگوں میں نظر آتی ہے۔ زمان و مکاں کی اضافیت، مسلم فکر و عرفان کے تقریباً مسلمات میں سے ہے مگر لگتا ہے کہ اشنوی نے اس کو پوری طرح سمجھا نہیں اور اس اضافیت کی اندرونی مطلقیت سے تجاوز کرکے اور نفسِ اضافیت کو برقرار رکھتے ہوئے اسے انفعانی جہت ہی سے سہی، مطلق پر بھی وارد کردیا حالانکہ اضافی کا مطلب ہی یہ ہے کہ مرتبۂ اطلاق میں اس کا عدم ضروری ہے۔ حرکت، تسلسل اور تغیر منہا ہو کر بھی زمانہ اگر لائقِ اثبات، بلکہ وجود کی لازمی نسبت کے طور پر موجود رہتا ہے تو بعض ایسی مشکلات پیدا ہوجائیں گی جو مابعد الطبیعی فکر کے لیے بھی لاینحل ہیں۔
جہاں تک اقبال کا تعلق ہے تو وہ اس نظریے کو قدرے پسندیدگی اور ہم دردی سے دیکھنے کے باوجود من و عن قبول نہیں کرتے۔ اس پر اُن کی جو رائے ہے اُس کے بنیادی اجزا یہ ہیں:
1- '...... a cultured Muslim sufi intellectually interpreted his spiritual experience of time and space in an age which had no idea of the theories and concepts of modern Mathematics and Physics,' (۱۶)
2- Iraqi is really trying to reach the concept of space as a dynamic appearance.' (۱۷)
3- 'His mind seems to be vaguely struggling with the concept of space as an infinite continum; yet he was unable to see the full implications of his thought partly because he was not a mattienatician and party because of his natural prejudice in favour of the traditional Aristotelian idea of a fixed universe.' (۱۸)
4- A keener insight into the nature of time would have led Iraqi to see time is more fundamental of the two....' (۱۹)
5- Iraqi's mind, no doubt, moved in the right direction, but his Aristotelian prejudices, coupled with a lack of psychological analysis, blocked his progress.' (۲۰)
6- With his view that Divine Time is utterly devoid of change.... it was not possible for him to discover the relation between Divine Time and serial time and to reach, through this discovery, the essentially Islamic idea of continuous creation which means a growing universe.' (۲۱)

حوالے قدرے طویل تو ہوگئے مگر ہم یہیں ایک ضروری نکتے پر گفتگو کرنا چاہ رہے ہیں، اور وہ یہ کہ ہماری رائے میں اقبال اچھی طرح جانتے ہوں گے کہ مسلمان فلاسفہ و متکلمین ہوں یا صوفیہ، اللہ کی نسبت سے زمان و مکاں کے باب میں چند امور پر اس طرح متفق ہیں کہ ان کے داخلی اختلافات بھی یہاں ایک طرف ہوجاتے ہیں:
۱۔ ذاتِ الٰہیہ ماورائے زمان و مکاں ہے
۲۔ قدمِ باری ذاتی ہے نہ کہ زمانی
۳۔ حرکت، تغیر، جہت اور حد، اپنے ہر معنی میں کمالِ ذاتی کے منافی ہیں، لہٰذا ان کا گزر صفات کے دائرے ،میں بھی محال ہے، اور یہ استحالہ عقلی بھی ہے۔
عراقی (اشنوی؟) بھی ان متفقات سے باہر تو نہیں گئے لیکن انھوں نے بات کہنے کا ایک ایسا نیم متصوفانہ نیم فلسفیانہ انداز اختیار کیا جس میں وہ اندرونی لچک موجود ہے جسے استعمال کرکے ایک صحیح المعنی قول کو بھی اُس کی مراد کے مخالف رخ پر موڑا جاسکتا ہے۔ اقبال کے لیے تنوعِ زمان و مکاں کا یہ تصور نہیں بلکہ اس کا بیان باعثِ کشش ہے، ورنہ جس نتیجے تک یہ تصور پہنچتا ہے وہ ان کے لیے قطعاً ناقابلِ قبول ہے، یعنی زمانِ الٰہیہ میں حرکت و تغیر کی نفی۔ اس سے پہلے تک کے تمام مراحل میں اقبال، عراقی کے ساتھ ہیں۔
جیسا کہ ہم اوپر کہیں اشارہ کرچکے ہیں کہ اقبال کی تمام فکری و تخیلی سرگرمیاں اُن کے تصورِ خودی کے گرد گھومتی ہیں اور خودی بھی انسانی خودی، جس کے اکثر تشکیلی عناصر Anthropomorphic ہیں۔ اقبال کا انسان روایتی انسان سے کہیں زیادہ مکمل ہے۔ وہ محض صفاتِ الٰہیہ ہی کا نہیں بلکہ ذاتِ الٰہیہ کا مظہر ہے اور اس وجہ سے اپنی وجودی انفرادیت میں کسی طرح کی شرکت کو قبول نہیں کرتا، حتیٰ کہ خدا کی بھی۔ وحدت الوجود کے مقابلے میں اُن کا نظریۂ اثنینیت، عبد و معبود کے تعلق کے اخلاقی و قانونی حدود کے تحفظ کے لیے نہیں ہے بلکہ اس کا حقیقی مقصود، کم از کم منطقی انتاج کی رُو سے، تألّہِ انسان اور تأنسِ الٰہ ہے۔ یہ وہ منتہا ہے جہاں وحدت الوجود نہیں پہنچ سکتا یا پہنچنا نہیں چاہتا۔ اس تک رسائی کا بس ایک راستہ تھا جو اقبال نے اختیار کیا: وجودی متوازیت۔ خدا اور انسان دو متوازی وجود ہیں جن کی موجودیت کے احوال تقریباً یکساں ہیں یعنی یہ دو مقابل ذاتیں ہیں جن کا وجودی سیاق و سباق فی الاصل مختلف نہیں ہے۔ چونکہ انسان کے موجود ہونے کی ایسی حالت تصور میں نہیں آسکتی جس میں زمان و مکاں مستقل حوالے کی حیثیت نہ رکھتے ہوں لہٰذا خدا کے ساتھ اس کی مبنی بر غیریت مشابہت کے اثبات کے لیے لازم ہے کہ زمان و مکاں کو خود ذاتِ باری کے لیے بھی ثابت کردیا جائے۔ بصورتِ دیگر انسان کا وجودی استقلال، متوازیت، غیریت اور مشابہت میں سے کوئی ایک چیز بھی establish نہیں ہوسکتی۔ زمانی مکانی تنوع اور اضافیت کے نظریے میں فطری طور پر اس بات کا جواز موجود ہے کہ زمانیت اور مکانیت انسانی خودی کے الوہی جوہر سے متصادم نہیں ہیں۔ ہاں خودی کا مسبوق عن الزمان اور محدود فی المکان ہونا اس کے نقص پر دلالت کرسکتا ہے، لیکن خودی اپنے دونوں مراتب میں ازروئے ماہیت اس نقص سے پاک ہے۔
عراقی کے بیان کردہ مراتبِ زمان و مکاں میں علامہ کو یہ امکان نظر آتا ہے کہ اس کی بنیاد پر انسانی خودی کا ربانی خودی سے صادر ہونا زیادہ قابلِ فہم ہوسکتا ہے۔ اسی لیے وہ عراقی کی سمتِ سفر کو درست کہتے ہیں۔ نزاع تصورِ انسان میں نہیں ہے بلکہ تصورِ خدا میں ہے۔ عراقی جب ذاتِ باری کی نسبت سے زمان کو حرکت و تغیر اور مکاں کو حدود و جہات سے عاری کرکے اُن کی ماہیت بدل دیتے ہیں تو یہ چیز اقبال کی scheme of things میں نہیں کھپتی۔ اس طرح انسانی خودی کا مستقل امتیاز maintain نہیں ہوسکتا اور مطلق خودی کو زمان و مکاں کی ہر جہت سے ماورا مان کر ایک تو مقید خودی اپنے مصدر سے محروم ہو کر وجودی استناد گنوا بیٹھتی ہے ،اور دوسرے اس طرح مقید خودی، مطلق خودی سے تقابلی امتیاز کے ساتھ مربوط ہونے کی  بجائے اُس کے ضد میں ڈھل جاتی ہے جس سے خود اس کی موجودیت ہی غیر حقیقی بن کر رہ جاتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اقبال اُس وقت تک عراقی کے ساتھ رہتے ہیں جب تک وہ انسان کے روحانی کمال کی تفصیل بیان کرتے ہیں، لیکن جوں ہی وہ اس کمال کو الوہی کمال کے سمندر میں قطرے کی طرح فنا ہوتے دیکھتے ہیں، اپنی راہ الگ کرلیتے ہیں۔۔۔۔ وہ راہ جو انھوں نے پہلے سے بنا رکھی ہے۔
ذاتِ خداوندی کا اپنی تمام صفات سمیت لااوّل و لاآخر  ہونا، مذہبی فکر کا بنیادی مسلّمہ اور مقدمہ ہے۔ اس کی پہلی دلالت ہی یہ ہے کہ وہ ذات لازمان و لامکاں ہے، یعنی حرکت، تغیر، تجدید وغیرہ اُس کی ماہیت میں متحقق ہیں نہ فعلیت میں۔ اس دعوے کومجروح یا کم زور کرنے والی ہر چیز بکل الوجوہ ایک انحراف ہے نہ صرف یہ کہ مذہبی فکر سے بلکہ خود نفسِ مذہب سے۔ یہی وجہ ہے اسلامی فکر و عرفان کی ساری روایت کم از کم اس معاملے میں ایسا لگتا ہے کہ ذرا سی لچک کی بھی روادار نہیں ہے۔ اس پس منظر میں اقبال کی Reconstruction کا منصوبہ اپنی غایت کے اعتبار سے اگر کسی بڑے اعتراض کا ہدف بن سکتا ہے تو وہ یہی ہے کہ انھوں نے پوری اسلامی روایت جس تصورِ الوہیت پر قائم ہے، اُسے بدلنے کی کوشش کی ہے اور انسان کے وجودی اور اخلاقی مرتبے کو ایک شدید شاعرانہ قوت کے ساتھ اتنا بڑھا دیا ہے کہ اس کے مقابلے میں خدا ہونا کچھ ایسا قابلِ فخر نہیں رہتا۔
بہرحال ہم کہنا یہ چاہ رہے تھے کہ حقائقِ انسانیہ کا صوفیانہ بیان اقبال کے تصورِ انسان کے لیے درکار بلندی اور پھیلائو فراہم کرتا ہے، لہٰذا وہ اس کی نتائجی کلیت کو سختی سے رد کرنے کے باوجود اسے اظہاری پہلو سے اپنے لیے کارآمد بنا لیتے ہیں، یعنی اُس کی معنوی ساخت سے سروکار رکھے بغیر اُس کے لفظی شکوہ کو اپنے مصرف میں لے آتے ہیں۔ مثال کے طور پر عراقی ہی کا معاملہ لے لیں۔ عرفانی روایت کے درجۂ دوم کے spokesmen کی طرح عراقی نے علم الوجود پر تشریحی انداز میں گفتگو کرتے ہوئے مسئلۂ زمان و مکاں کو اپنا ہدف بنایا ہے۔ انھوں نے منطقی اور مکتبی صوفیہ کے اسلوب میں زمان و مکاں کے تین بنیادی مراتب بتائے ہیں: مادّی اشیاء کا زمان و مکاں، روحانی موجودات کا زمان و مکاں اور الوہی زمان و مکاں۔ اس سے ان کا مقصود یہ تھا کہ وجودِ اصلی اور اُس کے تعینات کی تفصیلی تحقیق ہوجائے اور اس کے ضمن میں حقیقتِ جامعۂ انسانیہ کا بھی بیان ہوجائے جو Being اور Becoming کا برزخ ہے اور خود متعین ہونے کے باوجود ماورائے تعینات حقیقت سے واصل ہونے کی قابلیت رکھتی ہے۔ یہی قابلیت اُس کی جامعیت کی واحد دلیل ہے۔ تصوف میں فنائے ذاتی اسی قابلیت کی کار فرمائی کا نام ہے۔ اقبال اس فنائے ذاتی کو بھی قبول کرتے ہیں مگر شکستنِ تعین کے معنی میں جو حیرت انگیز طور پر ارادی ہے۔
اقبال نے چونکہ اپنے لیے مفکر کے بجائے Reconstructor کا کردار منتخب کیا ہے، اس لیے زمان و مکاں کے مسئلے پر بھی وہ پہلے سے موجود تصورات کی تراش خراش اور انھیں ایک نئی ترکیب میں ڈھالنے تک محدود رہتے ہیں، اور یہ سارا عمل اُن کے خصوصی طرزِ فکر کے تابع ہے جو اپنی بناوٹ میں رومانوی اور آدرشی ہے۔ برگساں کا حیاتیاتی دورانِ خالص، آئن اسٹائن کی طبیعیاتی مطلق اضافیت یا اضافی مطلقیت، اور ولیم جیمز کا نفسی تجربہ اور اس کے روحانی و مابعد الطبیعی محتویات  - علامہ کے تصورِ زمان و مکاں کے بنیادی ترین عناصر ہیں جنھیں آپس میں جوڑنے کے لیے وہ ان کی انتاجی شکل کو محو کردیتے ہیں۔ اس طرح کی مشروط اور censored پیوند کاری ظاہر ہے کہ پہلے سے طے شدہ نتائج کے حصول ہی کے لیے کی جاتی ہے۔ اس کے لیے ایک خاص طرح کا ذہن درکار ہے جس میں تصورات شاعرانہ آمد کی طرح pharse ہوتے ہیں جنھیں اسی ذہن میں خلقی طور پر موجود معنی آفرینی کی غیر و قوفی صلاحیت ایک ایسے discource میں تبدیل کردیتی ہے جس میں جمالیات اور اخلاق یک جان ہو کر اس کی verifyability کا سوال نہیں اُٹھنے دیتے۔ اپنی functional جہت میں یہ ذہن حقیقت کی لازمی اعتباریت میں ’تجربی‘ وثوق پیدا کرنے کے لیے phenomenal کو rearrange کرکے نئی ترکیبی دلالتیں وضع کرتا ہے جو اُس کے ماقبل موضوعہ مدلولات یا بالفاظِ دیگر مفروضاتِ اوّلیہ کو واقعیت اور کلیت کا رنگ دے سکیں۔ اس ذہن سے پیدا ہونے والی فکر کو ہم نے جمالیاتی و اخلاقی اس لیے کہا ہے کہ کلیت و واقعیت کا اجتماع اگر ممکن ہے تو اسی طرح۔ کم از کم برصغیر کی حد تک مسلم روایت میں اس ذہن کا اگر واحد نہیں تو سب سے متحرک اور طاقت ور اظہار اقبال میں ہوا۔ انھیں دوسروں کے مقابلے میں ایک سہولت یہ بھی میسر تھی کہ مغربی علوم اور جدید سائنس کا تفصیلی علم رکھتے تھے اور مغرب کی شعریات سے بھی دوسروں کے مقابلے میں کہیں زیادہ واقف تھے۔ اس کی وجہ سے اُن کے ذہن کو اپنی فطری functioning، یعنی مظاہر کی نئی ترتیب و ترکیب کے لیے درکار خام مواد بھی کثرت سے دستیاب ہوگیا جس کے لاانتہا تنوع اور نیز قبولیت کی بنا پر انھیں کسی بھی مرحلے پر پانی کے حصول کے لیے کنواں خود نہیں کھودنا پڑا۔
اگر آدمی خود کو کہیں fix کیے بغیر اقبال کے خیالات و تصورات کا حقیقی مفہوم میں غیر جانب دارانہ مطالعہ کرسکے تو کم از کم اس نتیجے پر پہنچنے سے رک نہیں سکتا کہ اُن کا اصولِ استدلال ایک خاص انداز سے تطبیقی ہے۔ اُن کی کائنات اپنے مابعد الطبیعی پھیلائو میں بھی انسان مرکز ہے۔ اس انسان مرکزی کو تقویت پہنچانے والا ہر تصور، اپنی نظریاتی حیثیت سے قطعِ نظر اُن کے لیے باعثِ کشش ہے۔ اُن کی بے پناہ تالیفی صلاحیت متضاد نظریات کو بھی اس مصرف میں لے آتی ہے۔ اُن کے فکر و تخیل کا عمل جہاں جہاں بھی مکمل ہوا، اس کی تکمیل میں بالعموم متضاد عناصر کی کار فرمائی صاف نظر آتی ہے۔ مثال کے طور پر اگر ایسی شخصیات کی ایک فہرست تیار کی جائے جن کا اقبال پر گہرا اثر ہے تو بڑی دلچسپ صورتِ حال سامنے آئے گی۔۔۔۔ لیکن یہ کام ہماری موجودہ ذمہ داری کے دائرے میں نہیں آتا، اس لیے اس طرف جانے کے بجائے سرِ دست ہم اپنی توجہ اس نکتے پر مرتکز رکھیں گے کہ اقبال دو چیزوں میں پائے جانے والے صریح تناقض کو رفع کیسے کرتے ہیں اور کیوں؟ کیسے کا جواب تو یہ ہے کہ وہ وجہِ تناقض کو نظر انداز کردیتے ہیں، اور جہاں تک ’کیوں‘ کا تعلق ہے تو اس کا جواب ہم دے چکے ہیں: کسی پہلے سے موجود خیال کو استدلال اور بیان کی سطحوں پر ثابت اور مستحکم کرنے کے لیے۔
جیسے مسئلۂ زمان و مکاں میں اگر ہم یہ دیکھنا چاہیں کہ مختلف تصورات پر تبصرے کی سطح سے اوپر اُٹھ کر اقبال کا اپنا مستقل مؤقف کیا ہے؟ اس کے لیے سب سے پہلے ہمیں اپنے ذہن کو اس بات پر قائل کرنا پڑے گا کہ نہایت بنیادی مباحث میں بھی یہ گنجائش کبھی ختم نہیں ہوتی کہ اُن پر اختیار کیا جانے والا مؤقف technically عقلی یا تجربی نہ ہو اور اس کی تشکیل کسی عارفانہ، حکیمانہ اور شاعرانہ تخیل سے ہوئی ہو۔ اس کے بعد ہی ہم یہ دیکھنے کے قابل ہوسکیں گے کہ اقبال کی نظر میں حرکت و تغیر اور وجود ہم معنی ہیں اور عینِ یکدیگر۔ وجود اپنے ہر مرتبے میں فعلیت کے فرق کے ساتھ اصلاً حرکت ہی ہے جس کے من و اِلیٰ کا ظہور بعد میں ہوتا ہے، اور وہ بھی ایسی اضافیت کے ساتھ جو واجب الاثبات ہے۔ اس کی تفصیل مطلوب ہو تو پیچھے گزرنے والے حوالے دیکھ لیے جائیں۔
اقبال کے تصورِ وقت کو ایک مربوط بیان میں ڈھالنا آسان نہیں۔ اُن کا شعر اُن کے فلسفے میں اور فلسفہ شعر میں اس طرح سرایت کیے ہوئے ہے کہ اُن کے کسی بھی نظریے کو بیان کرتے ہوئے ایک اندرونی منتقلی کے مسلسل عمل سے گزرنا پڑتا ہے جو اظہار و استدلال کے ظاہری در و بست کو بھی منقلب کرتا رہتا ہے۔ اس لیے بہتر ہے کہ اُن کے اس تصور کو نکتہ بہ نکتہ کرکے بیان کرنے کی کوشش کی جائے جس کے ذریعے سے امید ہے کہ اس مسئلے پر اقبال کے فکر و تخیل کے حاصلات کا ایک مجموعی خاکہ سا تیار ہوجائے گا:

۱۔ وجودِ حقیقی، خودی ہے۔
۲۔ خودی کی دو وجودی جہتیں ہیں:
ذاتیت اور فعلیت
۳۔ ذاتیت کے بنیادی اوصاف یہ ہیں:
وحدت، قدم، علم، آزاد ارادہ اور متصف بالصفات ہونا
۴۔ فعلیت کا بنیادی عنصر تخلیق ہے۔
۵۔ ذات اور فعل کے درمیان حرکت متحقق ہے۔
۶۔ یہ حرکت مکانی نہیں ہے بلکہ تغیرِ محض یا تغیر بلا تواتر ہے۔ یعنی اس سے کوئی وجودی اور اصلی تبدیلی عمل میں نہیں آتی بلکہ ذات کی قوۃ، فعل میں ڈھلتی ہے۔
۷۔ یہی تغیر، دورانِ محض ہے جو اصلِ زمان ہے یا یوں کہہ لیجیے کہ زمانِ حقیقی ہے جس کے ذریعے سے ذاتِ الٰہیہ میں پوشیدہ امکانات عمل پذیر ہوتے ہیں اور اس کے کمالات unfold
۸۔ خودی سے خودی کے صدور میں یہ پورا setup الوہی سے انسانی ہوجاتا ہے ضروری فرقِ مراتب کے ساتھ
۹۔ انسانی realm میں ہستی کا اصول چونکہ اثنینیت ہے لہٰذا یہاں زمان یا حرکتِ اصلی یاتغیرِ محض کو succession لاحق ہوجاتی ہے جو مرتبۂوحدت میں درکار نہیں تھی کیوںکہ وہاں کوئی دوسرا نہیں تھا۔
۱۰۔ تاہم انسانی خودی بھی جس حرکت سے عبارت ہے وہ دورانِ محض ہی ہے۔
۱۱۔ اس لیے انسان زمانِ الٰہیہ کے معانی کو اپنے اندر دریافت کرسکتا ہے۔
۱۲۔ انسانی خودی کی فعلی تحدیدات کی وجہ سے زمانے کے بہائو پر جب اس کی گرفت ڈھیلی پڑنے لگتی ہے تو اُس کا تصورِ زمان بھی میکانکی اور جبری ہوجاتا ہے۔
۱۳۔ نتیجتاً انسانی خودی کی طرح انسانی تاریخ بھی یا تو نظر کا دھوکا بن کر رہ جاتی ہے یا تقدیر کے تابع ہوجاتی ہے۔
۱۴۔ ان تحدیدات کو جو خودی کی حقیقت سے بُعد کے نتائج ہیں، توڑنے کا ایک ہی ذریعہ ہے: حرکت و تغیر کے در تمامی مراتب حقیقی اور عینِ وجود ہونے کا وجدانی ایقان۔
۱۵۔ اسی سے وہ آزادانہ تخلیقی ارادہ بیدار ہوگا جو غلبہ و تقدمِ خودی بر زمان کے ربانی اصول کا عکاس ہے۔
۱۶۔ انسانی خودی اپنی اس حالت میں زمانے یعنی حرکت و تغیر کی کائناتی رو پر غالب آسکتی ہے کہ وہ اپنے مصدر یعنی ربانی خودی میں کار فرما از ذات تا بہ صفت یا از قوۃ تا بہ فعل حرکت کا تحقق خود اپنے اندر کرنے لگے۔
۱۷۔ یہی وہ حال ہے جو انسانی خودی کو بقائے دوام کا مستحق بناتا ہے۔

یہ ہیں علامہ کے تصورِ زمان کے وہ بنیادی نکات جس میں وہ مسلم فکر کی پوری روایت میں منفرد ہیں۔ ان میں سے کوئی ایک نکتہ بھی اس روایت میں موجود نہ تھا۔ اس انفرادیت کے ظاہر ہے کہ کچھ اسباب ہیں۔ اقبالیات میں ان کی تحقیق پر ابھی کوئی قا بلِ ذکر کام نہیں ہوا، شاید آئندہ کوئی صاحب ہمت فرمائیں۔
مذکورہ بالا نکات کا جو خلاصہ نکلتا ہے وہ یہ ہے کہ زمانہ خدا کے لیے بھی ثابت ہے مگر وہاں اس کا ثبوت عینی نہیں ہے، جب کہ انسانی دنیا میں وقت فاعلی انداز رکھتا ہے اور ایک مؤثر اصول کے طور پر موجود ہے۔ تاہم انسان اپنی خودی کے حقیقی پھیلائو میں زمانے کو subjectivize کرکے اُس کے ماہیتی جوہر یعنی دورانِ محض اور اخلاقی جوہر یعنی بقائے دوام کا تجربہ کرسکتا ہے اور اسے اپنی وجودی و روحانی تکمیل کا وسیلہ بنانے پر قادر ہوسکتا ہے۔
اگلی گفتگو کا موقع آیا تو ہم اقبال کی شاعری اور خطبات سے اُن کے تصورِ وقت کے ضروری اجزا کو اکٹھا کرکے ان کا تنقیدی مطالعہ کریں گے۔


حوالے اور حواشی
1
Pure time, then, as revealed by a deeper analysis of our conscious experience, is not a string of separate, reversible instants; it is anorganic whole in which the past is not left behind, but is moving along with, and operating in, the present. And the future is given to it not as lying before, yet to be traversed; it is given only in the sense that it is present in its nature as an open possibility.  (page, 39-40)
2
Time regarded as destiny forms the very essence of things. As the Qur’an says: ‘God created all things and assigned to each its destiny. The destiny of a thing then is not an unrelenting fate working from without like a task master; it is the inward reach of a thing, its realizable possibilities which lie within the depths of its nature, and serially actualize themselves without any feeling of external compulsion.  (page, 40)
3
If time is real, and not a mere repetition of homogeneous moments which make conscious experience a delusion, then every moment in the life of Reality is original, giving birth to what is absolutely novel and unforeseeable. ‘Everyday doth some new work employ Him, says the Qur’an.  (page, 40)
4
To exist in real time is not to be bound by the fetters of serial time, but to create it from moment to moment and to be absolutely free and original in creation.  (page, 40)
5
On the analogy of our conscious experience, then, the universe is a free creative movement.  (page, 41)
6
A critical interpretation of the sequence of time as revealed in our selves has led us to a notion of the Ultimate Reality as pure duration in which thought, life, and purpose interpenetrate to form an organic unity.  (page, 44)
7
If we regard past, present, and future as essential to time, then we picture time as a straight line, part of which we have travelled and left behind, and part lies yet untravelled before us. This is taking time, not as a living creative moment, but as a static absolute, holding the ordered multiplicity of fully- shaped cosmic events, revealed serially, like the picture of a film, to the outside observer....... Personally, I am inclined to think that time is an essential element in Reality. But real time is not serial time to which the distinction of past, present, and future is essential; it is pure duration, i.e. change without succession.  (page, 46)
8
Serial change is obviously a mark of imperfection; and, if we confine ourselves to this view of change, the dificulty of reconciling Divine perfection with Divine life becomes insuperable..... The Absolute Ego, as we have seen, is the whole of Reality. He is not so situated as to take a perspective view of an alien universe; consequently, the phases of His life are wholly determined from within. Change, therefore, in the sense of a movement from an imperfect to a relatively perfect state, or vice versa, is obviously inapplicable to His life.  (page, 47)
کلیاتِ اقبال، فارسی، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ص۔ ۸۵۔۸۶